نقطہ نظر

دی کلائمیٹ بُک: موسمیاتی تبدیلی تو بس تباہی ہی لاتی ہے

کاربن ڈائی آکسائیڈ پوری زمین کے درجہ حرارت اور سمندروں کی کیمیائی ترتیب کو بھی نازک انداز میں کنٹرول کرتی ہے۔

نوٹ: عالمی موسمیاتی رہنما گریٹا تھیونبرگ کی قیادت میں تالیف کی گئی کتاب ’دی کلائمیٹ بُک‘ جس میں دنیا کے معروف لکھاریوں کے موسمیاتی تبدیلی پر 100 مضامین شامل ہیں، اس کا اردو ترجمہ سلسلہ وار ڈان نیوز ڈیجیٹل پر شائع کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے کا پہلا مضمون پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔


گریٹا تھیونبرگ کی کتاب دی کلائمیٹ بک کے پہلے مضمون کاربن کی قدیم تاریخ میں مصنف پیٹر برینن جو شہرہ آفاق کتاب ’دی اینڈز آف دی ورلڈ‘ کے بھی مصنف ہیں، ہمیں بتاتے ہیں کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اگر دنیا میں مقررہ مقدار میں ہو تو ہمارے لیے فائدہ مند ہے لیکن اگر اس کی مقدار بہت زیادہ ہوجائے تو ہمارے لیے نقصان کا باعث بن جاتی ہے۔

نقصان بھی ایسا کہ جس کے اثرات بہت بڑی تباہی لے کر آتے ہیں کیونکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی فضا میں بہتات ہی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ بنتی ہے۔ آئیے اس بات کی تفصیل انہیں کی زبانی سنتے ہیں۔

کاربن ڈائی آکسائیڈ زندگی کی ماخذ

ہر قسم کی زندگی کاربن ڈائی آکسائیڈ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہی وہ جادو ہے جس سے بائیو اسفئیر یعنی جاندار دنیا کی ہر مخلوق بنتی ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ، زمین کی سطح پر فوٹو سنتھیسس کے عمل کے ذریعے سورج کی روشنی اور پانی کے ساتھ مل کر جاندار مادے میں تبدیل ہوجاتی ہے جنہیں ہم پودے کہتے ہیں جو بدلے میں آکسیجن خارج کرتے ہیں۔

پھرپودوں میں موجود کاربن، جانوروں کے جسموں اور ماحولیاتی نظام کے ذریعے گزرتے ہوئے سمندر اور فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی صورت میں واپس آجاتا ہے۔ لیکن اس کاربن کا کچھ حصہ دنیا کی سطح پر اپنے سائیکل کو چھوڑ کر چونے کے پتھروں یا کاربن کے کیچڑ کی شکل میں مکمل طور پر زمین کے اندر چلا جاتا ہے اور زمین کی پرت میں کروڑوں سالوں کے لیے گہری نیند سوجاتا ہے۔

اگر یہ کاربن دفن نہ ہو توپھریہ پودوں کی صورت میں جانوروں، فطر (فنگی) اور جرثوموں کے نظام ہاضم کے ذریعے ختم ہوجائے۔

اسی طرح فوٹو سنتھیسس سے بننے والی 99.99 فیصد آکسیجن کو جاندار استعمال کر لیتے ہیں اور اگر پودوں میں موجود آکسیجن کا چھوٹا سا حصہ چٹانوں میں نہ جائے تو ساری آکسیجن زمین پر موجود حیات استعمال کرلے۔ چٹانوں میں جانے والے اس حصے کی وجہ سے زمین کو اتنی زیادہ آکسیجن ملتی ہے۔

دیگر الفاظ میں زمین کا فضائی ماحول جس میں سانس لی جاسکتی ہے، آج کے جنگلات اور خوردبینی جانداروں سے خارج کردہ آکسیجن کا تحفہ نہیں ہے بلکہ یہ تو انسانی تاریخ کے دوران آکسیجن خارج کرنے والی نباتاتی حیات کی بدولت ہے جس نے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے اسے زمین کی تہہ میں فوسل فیول کے طور پر محفوظ کیا۔

اگر کاربن ڈائی آکسائیڈ زمین پر موجود تمام جانداروں کی زندگی کے لیے آکسیجن کا بالواسطہ ذریعہ ہوتی تو یہ کہانی بہت آسان ہوتی لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ پورے سیارے کے درجہ حرارت اور پورے سمندر کی کیمیائی ترتیب کو بھی بڑے نازک انداز میں کنٹرول کرتی ہے۔

جب کاربن کی کیمیائی ترتیب بگڑ جاتی ہے تو بائیو اسفیئر ہل جاتا ہے، تھرمو اسٹیٹ (درجہ حرارت کو اعتدال پر لانے کا ذریعہ) ٹوٹ جاتا ہے، سمندر تیزابیت اختیار کرلیتے ہیں اور چیزیں ختم ہوجاتی ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زمین کے ہر جزو کے لیے حیرت انگیز اہمیت ہے۔ یہ صنعتی آلودگی پھیلانے والی عام گیس نہیں ہے جیسے کلوروفلوروکاربنز یا سیسہ، بلکہ جیسا کہ سمندری ماہر راجر ریول نے 1985 میں لکھا تھا، ’کاربن ڈائی آکسائڈ جاندار دنیا کا سب سے اہم مادہ ہے‘۔

کاربن سائیکل

کاربن ڈائی آکسائیڈ آتش فشاں سے نکلتی ہے، فضا اور سمندروں میں گھلتی ہے، زندگی کی سرگرمیوں کا حصہ بنتی ہے اور پھر چٹانوں میں واپس جذب ہو جاتی ہے۔ یہی وہ عمل ہے جو زمین کو زمین بناتا ہے۔ اس عمل کو کاربن سائیکل کہا جاتا ہے اور زمین پر زندگی کا دارومدار اس عالمی سائیکل کے نازک مگر متحرک توازن کو برقرار رکھنے پر ہے۔

کاربن ڈائی آکسائیڈ مسلسل آتش فشاں سے نکلتی ہے (جو کہ انسانی اخراج کا صرف ایک سوواں حصہ ہوتا ہے) اور زمین کی سطح پر جاندار اس کا آپس میں مسلسل تبادلہ کرتے ہیں۔ زمین اسے اپنے نظام سے مسلسل صاف کرتا رہتا ہے اور موسمیاتی تباہی کو روکتا ہے۔ پہاڑی سلسلوں کی کٹائی سے لے کر کاربن سے بھرپور ذراتی جانداروں کے برفانی طوفانوں کی تہہ میں ڈوبنے تک، کاربن کو کم کرنے والی سرگرمیاں ایک طرح سے زمین کے توازن کو برقرار رکھنے کا کام کرتی ہیں۔ یہ ایک ناقابل یقین، معجزاتی دنیا ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔ ایک ایسی دنیا جسے ہم بے فکری سے نظرانداز کرتے ہیں۔

اگر کاربن سائیکل بگڑ جائے؟

ارضیاتی تاریخ میں زمین کو کبھی کبھار ہی ایک حد سے آگے دھکیلا گیا ہے۔ ایسا کرنے سے زمین کا نظام جھک سکتا ہے اور یہ ٹوٹ بھی سکتا ہے اور کبھی کبھی ایسا انتہائی تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ تباہی کے ایسے واقعات ہیں جو زمین کی تاریخ کی گہرائی میں مدفون ہیں۔ کاربن سائیکل مکمل طور پر بے قابو ہوجاتا ہے، بگڑ جاتا ہے، اور کنٹرول سے باہر ہوجاتا ہے۔ اور اس کا انجام بڑے پیمانے پر نسل کشی ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر اگر براعظموں تک پھیلے ہوئے آتش فشاں کاربن سے بھرپور چونے کے پتھروں کو جلا کر اور زیرِزمین بڑے پیمانے پر کوئلے اور قدرتی گیس کے ذخائر کو آگ لگا کر ہوا میں ہزاروں گیگاٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ چھوڑیں تو کیا ہوتا ہے؟ یہ وہ عذاب تھا جو 25 کروڑ 19 سال پہلے جانداروں نے جھیلا تھا۔

دنیا کی تاریخ میں ہونے والی سب سے بڑی نسل کشی سے کچھ عرصہ پہلے قدیم حیاتی دور کے اختتام پر زندگی کے 90 فیصد حصے نے کاربن سائیکل سے ہونے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے زیادہ اخراج سے بہت بڑا سبق سیکھا تھا۔ قدیم حیاتی دور میں ہونے والی مذکورہ نسل کشی کے آخری دنوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ ہزاروں سالوں تک سائبیریا کے آتش فشاں سے نکلتی رہی جس نے پیچیدہ زندگی کے سلسلے کو تقریباً ختم کردیا تھا۔

اُس وقت کاربن سائیکل میں تمام معمولی حفاظتی اقدامات ناکام ہوگئے تھے جو پوری ارضیاتی تاریخ میں سب سے بدترین لمحہ تھا۔ درجہ حرارت 10 ڈگری تک بڑھ گیا تھا اور ہمارا سیارہ مہلک گرم اور تیزابیت والے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندروں سے لرز اٹھا تھا جو شدید الجی کیچڑ کی جوبن سے بھرپور تھے جبکہ اس نے قدیم پانیوں سے آکسیجن بھی چھین لی تھی۔

آکسیجن کے بغیر اس سمندر میں زہریلا ہائیڈروجن سلفائیڈ بھر گیا تھا جبکہ طوفان غیرمعمولی شدت اختیار کرکے آسمان پر گرج رہے تھے۔ اس کے بعد جب طوفانوں کا زور آخرکار ٹوٹ گیا تو اگر تب دنیا کا سفر کیا جاتا تو ایک درخت بھی نظر نہیں آتا، دنیا کی مرجانی چٹانیں (کورل ریف) جرثوموی کیچڑ میں بدل گئیں تھیں، فوسل فیول کے اعداد و شمار خاموش ہوگئے تھے اور اس کے بڑے حصے میں قدرتی ایندھن جلانے کے باعث سیارے کو تباہی سے واپس پلٹنے میں تقریباً ایک کروڑ سال لگے تھے۔

زمین کی تاریخ میں بڑے پیمانے پر ہونے والی ہر نسل کشی کو اسی طرح کاربن سائیکل کے عالمی خلل سے جوڑا گیا ہے جس کے اشارے جیوکیمیادانوں نے چٹانوں سے نکالے ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی حیاتیاتی کرہ میں مرکزی اہمیت کو دیکھتے ہوئے شاید ہمیں حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اس نظام کو توازن سے اتنا دور دھکیلنے سے سیارے کی ایسی شدید تباہی بار بار ہوسکتی ہے۔

اب اگر انسانوں کی ایک نسل نے وہی کام کرنے کی کوشش کی جو لاکھوں سال پہلے آتش فشاں کیا کرتے تھے تو کیا ہوگا؟ کیا ہوگا اگر انہوں نے زمین کی پوری تاریخ میں پودوں کی زندگی کی وجہ سے زیر زمین دفن کاربن کے بڑے ذخائر کو جلا ڈالا؟

احمقانہ طریقے سے فوسل فیول کی صورت میں محفوظ کاربن کو زمین کی گہرائی سے نکال کر اور جدید مشینوں کی مدد سے زمین کی سطح پر جلایا جائے تو بھی کیا ویسی ہی تباہی آئے گی جو آتش فشاں کے دھماکے سے آئی تھی؟ ویسی ہی نہیں بلکہ یہ سب کچھ قدیم زمانے میں ہونے والے بڑے پیمانے پر جانداروں کے ختم ہونے کے مقابلے میں دس گنا تیزی سے ہوگا؟ یہ وہ احمقانہ سوال ہے جس کا جواب ہم اب زمین سے چاہتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کو وجہ درکار نہیں

موسمیاتی تبدیلی پر سیاسی نعرے بازی اثرانداز نہیں ہوتی نہ ہی یہ اقتصادی ماڈلز کے تابع ہے۔ یہ صرف فزکس کے قوانین کے تابع ہے۔ اسے پرواہ نہیں کہ فضا میں اضافی کاربن ڈائی آکسائیڈ لاکھوں سال میں ایک بار پھٹنے والے آتش فشاں سے آئی ہے یا انسانی تاریخ کی ابتدائی صنعتی تہذیب سے، اس کا ردعمل ایک ہی جیسا ہوگا۔ اور ہمارے پاس چٹانوں میں قدیم تباہیوں کی قبروں سے بھرا ہوا فوسل ریکارڈ ایک واضح انتباہ ہے۔

اچھی خبر یہ ہے کہ ہم اب بھی ان قدیم تباہیوں کی شدت کے قریب نہیں پہنچے ہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ آج زمین ماضی کے برے زمانوں کے مقابلے میں کاربن چکر سے ہونے والی تباہی جھیلنے کے لیے زیادہ مضبوط ہو۔

ہمیں زمین کی تاریخ کے بدترین واقعات کی اس شرمناک فہرست میں حالیہ صنعتی دور کا نام شامل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اگر چٹانیں ہمیں کچھ بتاتی ہیں تو وہ یہ ہے کہ ہم زمین کے نظام کے سب سے طاقتور لیورز کو کھینچ رہے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے ہم اپنی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔

مجتبیٰ بیگ

لکھاری معروف ماحولیاتی مصنف اور مترجم ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔