پاکستان

سپریم کورٹ کا موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے حکومتی اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار

اٹارنی جنرل پاکستان نے سپریم کورٹ سے وفاقی حکومت کی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پالیسی 15 اگست تک مکمل کر کے جمع کرانے کی مہلت مانگ لی۔

موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کے قیام سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اب تک اٹھائے گئے حکومتی اقدامات سے عدالت مطمئن نہیں ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینج نے کیس کی سماعت کی، وزیر اعظم شہباز شریف کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ رومینہ خورشید عدالت میں پیش ہوئیں۔

جسٹس منصور علی نے رومینہ خورشید سے مکالمہ کیا کہ آپ بھی موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اقدامات پر تفصیلی رپورٹ دیں، اب تک اٹھائے گئے اقدامات سے عدالت مطمئن نہیں ہے، اگلی سماعت تک تفصیلات جمع کرائیں۔

دورران سماعت چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا نے موسمیاتی تبدیلی پالیسی 2024 عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ 195 منصوبوں کے لیے فنڈز مختص کیے گئے، بیشتر منصوبے مکمل ہوچکے ہیں۔

دوران سماعت حکومت بلوچستان نے موسمیاتی تبدیلی پالیسی 2024 عدالت کے سامنے پیش کر دی، جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ رپورٹ کے مطابق جون 2024 میں پالیسی بنائی گئی، اب تک کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں؟ چیف سیکرٹری بلوچستان نے عدالت کو بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے 34 ارب 60 کروڑ کے فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔

انہوں نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ پالیسی کے تحت سرکاری اسکولوں اور ٹیوب ویلز پر سولر سسٹم نصب کیا گیا ہے، پانی کے حوالے سے بلوچستان میں اس وقت 8 سے 10 منصوبوں پر کام جاری ہے، وفاقی حکومت کے تعاون سے بلوچستان میں 141 ارب روپے سے 19 ڈیم بنائے جارہے ہیں۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات پر تعریف کی جب کہ اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پالیسی 15 اگست تک مکمل کر کے جمع کرانے کی مہلت مانگ لی۔

سندھ اور پنجاب نے گزشتہ روز موسمیاتی تبدیلی پالیسی اور اقدامات سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا تھا، سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت 15 اگست تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ 11 مئی کو سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو پاکستان کلائمیٹ چینج ایکٹ 2017 کے تحت پندرہ دن کے اندر اتھارٹی قائم کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے فنڈز کا قیام مکمل کرنے کا حکم دیا تھا۔

بینچ نے پبلک انٹرسٹ لاء ایسوسی ایشن آف پاکستان کی طرف سے ایڈووکیٹ سید فیصل حسین نقوی کے ذریعے دائر کی گئی درخواست کی سماعت کی، جس میں ماحولیاتی تبدیلی سے ملک کو لاحق خطرے کو اجاگر کیا گیا تھا۔

21 مارچ کو ہونے والی سماعت میں، اٹارنی جنرل برائے پاکستان منصور اعوان نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ایکٹ کے تحت ایک ماہ کے اندر کونسل کا اجلاس منعقد کیا جائے گا جس میں اتھارٹی کے قیام کے ساتھ ساتھ فنڈ سے متعلق سوالات کو حل کیا جائے گا۔

بعد ازاں 17 مئی کو وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کے قیام کی منظوری دے دی تھی۔

وزیراعظم کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کے قیام کی منظوری پاکستان موسمیاتی تبدیلی ایکٹ 2017 کے تحت دی گئی ۔

26 مئی کو وزارت موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کے قیام کے لیے اتھارٹی کے چیئرپرسن اور ممبران کی تقرری کے عمل کا آغاز کردیا گیا تھا۔