نقطہ نظر

سرکاری اور نجی ملازمت کے تنخواہوں میں واضح فرق کا تدارک ضروری ہے

پاکستان کے تنخواہ دار طبقے کو دیگر ممالک کی نسبت سب سے کم تنخواہ ملتی ہے جبکہ وہ انکم ٹیکس بھی زیادہ ادا کرتے ہیں، بجٹ کی منظوری کے بعد اگست میں انہیں اپنی پہلی تنخواہ ملے گی۔

آجر اور حکومت کی جانب سے ناروا سلوک کی وجہ سے پاکستان میں تنخواہ دار طبقے سے تعلق رکھنے والے گھرانے مایوس اور ناراض ہیں۔ وہ لوگ جنہیں پہلے ہی کم تنخواہ ملتی ہے، زیادہ ٹیکس کٹوتیوں کی وجہ سے مزید پریشانی کا شکار ہیں۔ بجٹ 2024ء کی منظوری کے بعد اگست میں انہیں اپنی پہلی تنخواہ ملے گی۔

ان کی مایوسی بجا ہے کیونکہ شواہد ثابت کرتے ہیں کہ مارکیٹ میں نوکریوں کا حصول کتنا مشکل ہے اور ملازمین کی شکایات کو دور کرنے میں عدم دلچسپی نے ان کی حوصلہ شکنی کی ہے جس کے ملازمین کی پیداواری صلاحیتوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

پاکستان کے تنخواہ دار طبقے کو دیگر ممالک کی نسبت سب سے کم تنخواہ ملتی ہے لیکن سب سے زیادہ انکم ٹیکس بھی وہی ادا کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں تمام پیشوں میں جامع افقی یا عمودی تنخواہوں کا جائزہ لینے والے قومی اعدادوشمار موجود نہیں۔

غیرسرکاری تحقیق میں متعلقہ ڈیٹا موجود نہیں جو مختلف شعبہ جات میں ایک جیسے پیٹرن کی نشان دہی کرسکے۔ سرکاری ملازمین کو ملنے والی مراعات کی وجہ سے یہ تعین نہیں ہوسکا کہ انہیں کتنی تنخواہیں ملتی ہیں۔ یوں نجی سیکٹر اور سرکاری تنخواہ دار طبقے کے درمیان تنخواہوں کے فرق کا اِدراک دشوار ہوجاتا ہے۔

پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ ناقص ٹیکس پالیسیز کے بوجھ تلے دبا ہے کیونکہ چھوٹے اور متوسط سطح کے نجی ادارے زیادہ افرادی قوت کو ملازمت پر رکھتے ہیں لیکن وہ غیرمنظم ہوتے ہیں اور نہ ہی اچھی اجرت دیتے ہیں۔

پاکستان میں ایک تاثر عام ہے جس کی ماہرینِ معاشیات اور کاروباری حضرات بھی حمایت کرتے ہیں کہ نچلی سطح کے سرکاری ملازمین، کام کے کم اوقات، محفوظ ملازمت، پینشن اور دیگر مراعات کی مد میں نجی سیکٹر کے ملازمین سے زیادہ کماتے ہیں۔

درحقیقت گریڈ 16 اور 17 کے سرکاری ملازمین اور نجی سیکٹر کے ملازمین میں تنخواہوں کا فرق اتنا زیادہ نہیں۔ گریڈ 18 سے 20 تک کے سرکاری ملازمین میں یہ فرق زیادہ ہے ماسوائے اچھے مالیاتی ادارے اور ٹیک کمپنیز اور ملٹی نیشنل کمپنیز کے اونچے رینکس کے ملازمین جنہیں سرکاری ملازم جیسی تنخواہ ملتی ہے۔ جبکہ اعلیٰ سرکاری رینکس یعنی گریڈ 21 سے 22 تک سرکاری ملازمین کی ماہانہ تنخواہیں، بہت سی نجی کمپنیز کے بورڈ ممبران کی کمائی کا محض ایک حصہ تصور کی جا سکتی ہے۔

تاہم پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کی 2021ء کی ایک تحقیق جسے ’کیش پوور، پرک رچ‘ کہا جاتا ہے، اس تصور کو چیلنج کرتی ہے۔ اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے بیوروکریٹس نام نہاد پاکٹ منی کی صورت میں جو کچھ وصول کرتے ہیں وہ ان کی تنخواہ سے کئی گنا زیادہ ہے۔

اس کے علاوہ سرکاری رہائش، گھریلو ملازم، ٹرانسپورٹ، صحت اور سفری سہولیات مل جانے کی وجہ سے بہت سی ضروریات پوری ہوجاتی ہیں جبکہ اس کے برعکس نجی سیکٹر کو کسی بھی طرح ملازمت کے لیے بہترین نہیں کہا جاسکتا ہے۔

پائیڈ کی رپورٹ کے مطابق، ’ورلڈ بینک کے ورلڈ بیوروکریسی اشاریوں کے مطابق پاکستان میں پبلک سیکٹر کی اجرت نجی شعبے کی اجرتوں کے مقابلے میں 53 فیصد زیادہ ہے‘۔ اس معاملے میں حکومت کی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔ کابینہ اراکین سمیت سینیئر اہلکاروں کو بھی معلوم نہیں کہ تنخواہوں کے ڈھانچے کو تشکیل دینے کا ذمہ دار کون ہے۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسان اقبال کا خیال ہے کہ یہ معاملہ وفاقی وزارت خزانہ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے جبکہ وزارت خزانہ کے حکام نے تجویز دی کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن (ای ڈی) یا سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ (ایس اینڈ جی اے ڈی) ان معاملات کو سنبھالتے ہیں۔

متعلقہ محکمہ جات کے اعلیٰ افسران کہتے ہیں کہ ان کی ذمہ داریاں محض سرکاری ملازمین تک محدود ہیں اور وہ نجی سیکٹر کے رسمی اور غیر رسمی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں کا تعین نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ لیبر سروے شاید اس حوالے سے معلومات فراہم کرسکتا ہے۔ یہ سروے اگرچہ اس موضوع کا کچھ حد تک احاطہ کرتا ہے لیکن یہ اتنا مؤثر نہیں۔

ایک انٹرویو میں ادارہ شماریات کے چیف نے وضاحت کی کہ سروے کرنے والوں نے لوگوں سے پوچھا کہ کیا وہ نوکری ڈھونڈ رہے ہیں؟ جنہوں نے انکار کیا ان کے لیے یہی سمجھا گیا کہ وہ کہیں ملازمت کررہے ہیں۔

دوسری جانب قومی اقتصادی سروے بتاتا ہے کہ ملک میں 8 فیصد بےروزگاری ہے لیکن ادارہِ شماریات کے لوگ بھی اس سے باخوبی واقف ہیں کہ بےروزگاری اس سے کہیں زیادہ ہے۔

سربیا کی ٹیکنالوجی کمپنی نمبیو کی طرف سے تیار کردہ گلوبل انڈیکس میں شامل 96 ممالک میں پاکستان 94ویں نمبر پر ہے کہ جس کی ٹیکس کٹوتی کے بعد اوسط ماہانہ تنخواہ 184 ڈالر ہے۔ پاکستان سے نیچے صرف مصر (95ویں) اور کیوبا (96ویں) ہیں۔

اس فہرست میں سوئٹزرلینڈ سرفہرست ہے جس کی اوسط ماہانہ تنخواہ 6 ہزار 786 ڈالرز ہے۔ بھارت 620 ڈالرز کی اوسط تنخواہ کے ساتھ 61 ویں نمبر پر ہے جبکہ بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا بالترتیب 90ویں، 91ویں اور 92 ویں نمبر پر براجمان ہیں۔

پاکستان میں تنخواہ دار آبادی پر معقول ٹیکس کے نظام کے نفاذ سے نہ صرف ملازمت پیشہ خاندان مستفید ہوں گے بلکہ اس سے مذکورہ انڈیکس میں پاکستان کی پوزیشن بھی بہتر ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ پاکستان بزنس کونسل نے اس مسئلے کو اجاگر کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ شیئر کی کہ یہ صورت حال بجٹ کے بعد مزید خراب ہوئی ہے۔

پاکستان بزنس کونسل نے ہمارے ٹیکس کے نظام کی خرابی کو ظاہر کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ موازنہ کیا اور اس کے شماریات بھی جاری کیے جس میں دونوں ممالک کے مختلف آمدنی والے طبقات پر لاگو انکم ٹیکس کا موازنہ کیا گیا۔ نتیجتاً پاکستان میں ٹیکس کی شرح بھارت سے تین گنا زیادہ ہے۔

پائیڈ کے سابق نائب چیئرمین راشد امجد نے تبصرہ دیا کہ ’ملک میں کم اجرت پر ہونے والی بحث کے باوجود قابلِ اعتماد اعدادوشمار کی کمی کی وجہ سے اجرت کے حالیہ رجحانات پر کوئی مطالعہ سامنے نہیں آیا ہے۔ نجی اور سرکاری شعبوں کے درمیان تنخواہوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر فرق ہوسکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں، ’بینکس، ملٹی نیشنل کارپوریشنز، بین الاقوامی کمپنیز اور بڑے کاروباری مراکز میں تنخواہیں اچھی ادا کی جاتی ہیں۔ متوسط درجے کی نجی فرموں میں تنخواہوں کا کچھ حد تک عام نجی شعبے سے موازنہ کیا جاسکتا ہے لیکن مختلف کمپنیز میں تنخواہوں میں فرق ہوتا ہے‘۔

پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر چوہدری محمد سعید جاگیرداروں کی طرح کام کرنے اور کارپوریٹ کلچر کو اپنانے میں ناکامی پر پاکستان کی نجی کمپنیز پر تنقید کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کمپنی مالکان کسی احتساب کے بغیر آقاؤں کی طرح کام کرتے ہیں جوکہ کاروبار کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

یہ جاگیردارانہ سوچ نجی شعبے کو پُرکشش نہیں بناتی اور باصلاحیت لوگ اس کی جانب راغب نہیں ہوتے۔ نتیجتاً اچھے پس منظر سے تعلق رکھنے والے باصلاحیت نوجوان سول سروس میں نوکری کے حصول کی کوشش کرتے ہیں جبکہ زیادہ وسائل رکھنے والے تعلیم یافتہ شہری زیادہ تر ملٹی نیشنل کمپنیز میں نوکری کرتے ہیں یا وہ بیرون ملک منتقل ہوجاتے ہیں۔

فنانشل کنسلٹنٹ اسد علی شاہ کے مطابق کارکردگی کے قطع نظر نچلی درجے کی سرکاری ملازمتوں میں بھی نوکری محفوظ ہوتی ہے جبکہ تنخواہ اور مراعات بھی زیادہ ملتی ہیں۔ اس کے برعکس نجی سیکٹر میں ملٹی نیشنل کمپنیز کے علاوہ بینکس، ٹیلی فون کمپنیز، تیل و گیس کی کمپنیز تنخواہ کم ادا کرتی ہیں لیکن ملازمین سے کام زیادہ کروایا جاتا ہے۔

کاپوریٹ سیکٹر میں اعلیٰ درجے پر کام کرنے والے ملازمین کو تنخواہیں زیادہ دی جاتی ہیں تاہم درمیانی اور چھوٹی درجے کی نجی ادارے جہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد زیرِ ملازمت ہے، وہ منظم نہیں اور تنخواہیں بھی کم دیتے ہیں۔

ظاہر ہے کچھ نجی ادارے ایسے بھی ہیں جو اچھی تنخواہیں دیتے ہیں۔

تاہم پالیسی ریسرچ اینڈ ایڈوائزری کونسل کے ریسرچ ہیڈ ڈاکٹر اسامہ احسان خان سرکاری ملازمت سے بدستور مطمئن نہیں ہیں۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر وہ مستقبل کا سوچنے والی کمپنیوں کی قدر کرتے ہیں جو حکومت کے برعکس حقیقی ٹیلنٹ کو پہچانتی ہیں اور انہیں سپورٹ کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی سرکاری ملازمت کے بجائے پرائیویٹ سیکٹر میں عہدے کو ترجیح دی۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

افشاں صبوحی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔