ضلع کرم میں 35 افراد کی ہلاکت کے بعد دونوں قبائل کے عمائدین جھڑپیں روکنے پر رضامند
خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں بوشہرہ اور مالی خیل کے قبائل کے درمیان زمین کے تنازع میں کم ازکم 35 افراد کی ہلاکت کے بعد دونوں قبائل کے عمائدین جھڑپیں روکنے اور جنگ بندی پر رضامند ہوگئے۔
ڈان نیوز کے مطابق فائرنگ کا تبادلہ آج پانچویں روز بھی جاری رہا جس میں 15 افراد جاں بحق ہو گئے جس کے نتیجے میں پانچ روز سے جاری جھڑپ میں جاں بحق افراد کی تعداد 35 تک پہنچ گئی ہے۔
ڈپٹی کمشنرضلع کرم جاوید اللہ محسود نے بتایا کہ فریقین کے عمائدین فائر بندی پر رضامند ہو گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کے تحت فورسز اور ضلعی انتظامیہ اور امن جرگے کے ممبران مختلف علاقوں میں جاکر مسلح قبائل کو مورچوں سے ہٹائیں گے۔
ضلع کرم کے دونوں قبائل کے درمیان زمین کے تنازع پر جھگڑا شروع ہوا تھا اور پانچ روز سے جاری جھڑپ میں 35 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 185 افراد زخمی ہوئے۔
متاثرہ علاقے میں پولیس اور سیکیورٹی کی بھاری نفری موجود ہے جبکہ کشیدہ حالات کی وجہ سے معمولات زندگی ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں۔
دوسری جانب گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کرم میں جاری صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے عجائب گھر اور گورکھ ناتھ مندر تحصیل گور گٹھری پشاور کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج کرم میں جو حالات چل رہے ہیں اس پر آج دوبارہ جرگہ بیٹھے گا لیکن صوبائی حکومت اس معاملے پر خاموش ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کرم میں آج تیسرا دن ہے راکٹ چل رہے ہیں، وہاں پر زمین پر لڑائی ہو رہی ہے لیکن صوبائی حکومت ان زمینوں کا فیصلہ نہیں کر سکی۔
انہوں نے کہا کہ کور کمانڈر، آئی جی اور چیف سیکریٹری کو اس معاملے کو دیکھنا چاہیے۔
کرم میں 35افراد جاں بحق، کاروبار زندگی مفلوج
خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں گزشتہ پانچ روز سے جاری جھڑپوں میں کم از کم 35 افراد جاں بحق اور 180 سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔
ضلع کرم کے دو قبائل کے درمیان فائرنگ کا سلسلہ پانچویں روز بھی جاری ہے جس میں مرنے والوں کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔
ضلع کرم کے علاقے بوشہرہ اور مالی خیل کے مابین زمین کے تنازع پر ابتدائی جھڑپوں کے بعد پیواڑ ، تنگی، بالشخیل، خار کلے، مقبل، کنج علی زئی اور پاڑہ چمکنی کڑمان کے علاقوں میں بھی جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں بھاری اور خودکار ہتھیاروں کا استعمال کیا جارہا ہے۔
ان جھڑپوں میں اب تک35 افراد جاں بحق اور 185 زخمی ہو گئے ہیں۔
پولیس انتظامیہ، فورسز اور جرگہ فائر بندی میں مکمل ناکام ہوگیا ہے اور متاثرہ علاقے میں پولیس و سیکیورٹی کی بھاری نفری موجود ہے۔
پاراچنار و صدہ شہر پر بھی درجنوں میزائل فائر کئے گئے جبکہ پاراچنار سے پشاور مین روڈ بھی ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند ہے۔
علاقے سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے انجینئر حمید حسین نے واقعے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ علاقے کے ہسپتال اور مارکیٹ میں ادویات ختم ہوگئی ہیں۔
پاراچنار سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہونے والے علی ہادی عرفانی نے حکومت سے فائر بندی کے لیے فوری اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا۔
کشیدہ صورتحال کی وجہ سے علاقے کے تمام تعلیمی ادارے اور بازار بند ہیں جبکہ سڑکوں پر ٹریفک معطل ہے۔