پاکستان

مستونگ میں سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے متعدد افراد کے زخمی ہونے کی متضاد اطلاعات

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جلسے میں شرکت کے لیے آنے والے قافلے پر فائرنگ کی گئی، سیکیورٹی فورسز کی جانب سے فائرنگ کی اطلاعات غیر مصدقہ ہیں، بلوچستان حکومت

بلوچستان حکومت نے کہا ہے کہ مستونگ میں سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ کی غیرمصدقہ معلومات موصول ہوئی ہیں جہاں ہسپتال نے واقعے میں 14 افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اتوار کو گوادر میں ایک جلسے کا اعلان کیا ہے جس میں ملک بھر سے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی شرکت متوقع ہے جہاں جبری گمشدگیوں کے معاملے پر بات چیت ہوگی۔

تنظیم نے آج صبح سویرے سے ہی مختلف حصوں سے گوادر کی طرف روانہ ہونے والے حامیوں کے بارے میں اپ ڈیٹس شائع کیں۔

بلوچستان حکومت کے ترجمان کی جانب سے آج مستونگ میں رونما ہونے والے واقعے کے بارے میں جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مستونگ میں فائرنگ سے متعلق افواہیں ہیں لیکن سیکیورٹی فورسز کی جانب سے فائرنگ کی اطلاعات غیر مصدقہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال کو جان بوجھ کر بگاڑ کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ کسی کو بھی قانون سے مستثنیٰ نہیں اور امن خراب کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی، گوادر میں مظاہرہ کرنے والوں کے پس پردہ عزائم واضح ہیں۔

بلوچستان حکومت نے کہا کہ پرامن احتجاج ہر کسی کا حق ہے تاہم قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، بلوچ یکجہتی کمیٹی کو بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل نکالنے کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت پرامن احتجاج کے حق کو تسلیم کرتی ہے لیکن بلوچ یکجہتی کمیٹی کو مظاہرے کے لیے جگہ کا انتخاب کرنے کے مقامی انتظامیہ کے حق اور ذمہ داری کو بھی تسلیم کرنا چاہیے۔

بلوچستان حکومت نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ساتھ بات چیت کی پیشکش کی ہے۔

دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی نے مستونگ سے مختلف مبینہ ویڈیوز پوسٹ کیں جن میں دعویٰ کیا گیا کہ سیکیورٹی فورسز نے گوادر کی طرف جانے والی بسوں اور گاڑیوں کی کھڑکیوں پر فائرنگ کی جس سے متعدد لوگ زخمی ہوئے۔

انہوں نے مزید الزام لگایا کہ سینکڑوں بے گناہ شہریوں کو اغوا کیا گیا، موبائل اور نیٹ ورک سروس بلاک کر دی گئی اور گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

شہید نواب غوث بخش رئیسانی میموریل ہسپتال کے سی ای او ڈاکٹر سعید احمد نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ مستونگ میں فائرنگ سے زخمی ہونے والے 14 افراد کو ہسپتال لایا گیا جن میں سے 5 شدید زخمیوں کو علاج کے لیے کوئٹہ منتقل کردیا گیا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رکن بیبرگ بلوچ نے کہا کہ مستونگ واقعے میں ہمارے 14 کارکنان گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے جن میں سے دو کی حالت تشویشناک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم نواب ہوٹل کے قریب موجود ہیں اور حکومت ہمیں اس طرح دبا نہیں سکتی۔

ڈان کے ایک نمائندے نے بتایا کہ مشتعل مظاہرین نے مستونگ کے مبینہ واقعے کے خلاف مظاہرے کے لیے کوئٹہ کی سریاب روڈ کو بند اور بند کر دیا جبکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کوئٹہ میں مظاہرین سے بلوچستان یونیورسٹی میں دھرنا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی منتظم ڈاکٹر مہرنگ بلوچ نے انسانی حقوق کی تنظیموں سے اس واقعے کا فوری نوٹس لینے کی اپیل کی اور بلوچ برادری سے مطالبہ کیا کہ انہیں جہاں روکا جائے وہاں پرامن مظاہرے کریں۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس بربریت کے خلاف پورے بلوچستان کو غیر معینہ مدت تک بند کر دیں گے۔

دریں اثنا، وکیل اور کارکن ایمان زینب مزاری نے خبردار کیا کہ پورا بلوچستان ریاست کے اس ظلم اور بربریت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے گا، یہ ریاست ایک بہت بڑی غلطی کر رہی ہے جس کے بہت دور رس نتائج ہوں گے۔

سینئر صحافی حامد میر نے صوبے میں حکومت بنانے والی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور صدر آصف علی زرداری سے اس واقعے کا جواب دینے کے مطالبہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ اس کا حکم کس نے دیا؟۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کا قافلہ گوادر جلسے میں شرکت کے لیے جا رہا تھا۔