کھیل

پیرس اولمپکس 2024ء میں شریک پاکستانی ایتھلیٹس کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

دریائے سین کے درمیان ہونے والے پیرس اولمپکس 2024ء کے مقابلوں میں ارشد ندیم سے جہان آرا نبی تک پاکستان کے 7 ایتھلیٹس شرکت کریں گے۔

بہترین ہونا ایک ایسا معیار ہے جو اگر نہ ہو تو یہ اولمپکس جیتنے کا خواب سچ کر دکھانے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ تیزی میں ایک ایک سیکنڈ کی برتری، ہر سینٹی میٹر سے مخالف کو مات دینا، ایتھلیٹس اسی کے لیے تو برسوں محنت کرتے ہیں اور اولمپکس میں شرکت کے اہل ٹھہرتے ہیں۔

پیرس میں دریائے سین کے درمیان ہونے والے اولمپکس 2024ء کے مقابلوں میں پاکستان کے 7 ایتھلیٹس شرکت کریں گے۔ تقریباً 25 کروڑ عوام کی نمائندگی کے لیے محض 7 بہت چھوٹا ہندسہ ہے لیکن ہمارے قومی کھلاڑیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے ہمیں متعلقہ اداروں کو ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے جو ملک میں ایتھلیٹس کی سرگرمیوں کی نگرانی کرتے ہیں۔

پاکستان ایک دور میں کھیلوں میں نمایاں شہرت رکھتا تھا لیکن اب یہ ایک بھولی ہوئی یاد کی مانند ہیں۔ پیرس اولمپکس میں ہر سپرنٹ، ہر شاٹ، اور ہر تھرو کھیلوں کی دنیا میں اس نام کو دوبارہ حاصل کرنے کا موقع ہے جسے ہماری قوم فراموش کر بیٹھی ہے۔ آئیے ان ایتھلیٹس پر نظر ڈالتے ہیں جو دنیائے کھیل کے سب سے بڑے مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔

ارشد ندیم —ایتھلیٹکس

مینز جیولین تھرو، اگست 6 تا 8

دنیا میں غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل صرف چند ہی ایتھلیٹس ایسے ہوتے ہیں جو ایک خواب پورا کرنے کے بعد دوسرا اور پھر یکے بعد دیگرے کئی معرکے سر کرنے کے خواب اپنی آنکھوں میں سجا لیتے ہیں۔

ایسا کیسے کرتے ہیں، ارشد ندیم اس سے خوب واقف ہیں۔ ٹوکیو اولمپکس 2020ء میں براہ راست کوالیفائی کرنے، 2022ء کے کامن ویلتھ گیمز میں طلائی تمغہ اور کھیلوں کا ریکارڈ اور 2023ء کی عالمی ایتھلیٹک چیمپیئن شپ میں چاندی کا تمغہ جیتنے کے بعد اب وہ پیرس اولمپکس کا حصہ بن رہے ہیں۔

وہ دو سال پہلے ہی ایلیٹ 90 میٹر کلب میں داخل ہوچکے ہیں جس میں ان کے ساتھی بھارتی حریف نیرج چوپڑا نے ابھی تک رسائی حاصل نہیں کی ہے۔ لیکن 26 سالہ نیرج بھارت کے اولمپک چیمپیئن ہیں جس پر پیرس اولمپکس میں ارشد ندیم کی نظریں جمی ہیں۔

35 سال بعد پاکستان کے لیے طلائی تمغہ جیتنے کی قوم کی توقعات 6 فٹ 3 انچ کے ارشد ندیم کے کاندھوں پر کوئی دباؤ پیدا نہیں کررہیں جو کامیابی کی سیڑھیاں اتنی مہارت سے چڑھ رہے ہیں کہ اس سے پہلے کسی ایتھلیٹ نے کبھی ایسی کامیابی حاصل نہیں کی ہوگی۔

ارشد ندیم قوم کی دعاؤں کے طالب ہیں کہ وہ 90.18 میٹر (جو ان کا زیادہ زیادہ دور جیولین پھینکنے کا ریکارڈ ہے) کا ریکارڈ توڑیں اور انہیں امید ہے کہ ٹاپ تھری میں جگہ بنائیں گے۔

ارشد ندیم کہتے ہیں، ’انٹرویوز میں مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ میرا مقابلہ کس سے ہے اور میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ میرا مقابلہ ارشد ندیم سے ہے‘۔

متعدد انجریز اور سرجریز کے بعد 27 سالہ ارشد ندیم اس وقت اچھی حالت میں ہیں جبکہ رواں ماہ پیرس ڈائمنڈ لیگ کے 84.21 میٹر تھرو گیمز میں ان کی چوتھی پوزیشن، ان کی صلاحیتوں کا ٹھوس اشارہ دیتی ہے۔

’اگر میں گولڈ جیت جاتا ہوں تو میں انتہائی خوش ہوں گا کیونکہ اس طرح جو اہداف ہم نے طے کیے ہیں، جو ٹریننگ ہم نے سارا سال کی ہے، ہم اس کا ثمر حاصل کرلیں گے‘۔

فائقہ ریاض

وومنز 100 میٹر، 2 اگست

فائقہ ریاض کو پیرس اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لیے محض 12 سیکنڈز ملیں گے اور اس کے لیے انہیں اتنا ہی کم وقت درکار ہے۔ مقابلے میں فائقہ کا مقصد 100 میٹر میں قومی ریکارڈ توڑنا ہے۔ اس کے لیے وہ رواں سال کے آغاز میں پہلے ہی 11.70 سیکنڈز میں 100 میٹر عبور کرنے کا ہدف حاصل کرچکی ہیں۔

24 سالہ فائقہ ریاض کہتی ہیں کہ ’اولمپکس میں شرکت کرنے کے حوالے سے میں اب بھی بے یقینی میں مبتلا ہوں‘۔ فائقہ یاض اپنی پسندیدہ ایتھلیٹ جمیکا کی شیلی این فریزر پرائس کے ہمراہ ڈیبیو کریں گی جو مسلسل پانچویں بار اولمپکس میں شرکت کررہی ہیں۔

2017ء میں ایتھلیٹکس کی جانب آنے سے پہلے فائقہ ریاض ہاکی کی کھلاڑی تھیں۔ لیکن ایتھلیٹکس میں وہ پاکستان کی تیز ترین خاتون بنیں اور اسی کھیل میں انہوں نے اطمینان اور کامیابی پائی۔

ان کے اہل خانہ نے اپنے خواب پورے کرنے کے عزم میں ان کا ساتھ دیا اور کبھی ان کی حوصلہ شکنی نہیں کی۔ قومی سطح پر ان کی مہارت سے سب خوب اچھی طرح واقف ہیں جبکہ وہ اکاؤنٹنگ اور فنانس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرچکی ہیں جوکہ اولمپکس کا حصہ بننے والے ایتھلیٹس کے لیے غیرمعمولی بات ہوتی ہے۔

غلام مصطفیٰ بشیر—شوٹنگ

مینز 25 میٹر ریپڈ فائر پسٹل، 4 اگست

پاکستانی اولمپک دستے میں شمولیت کا احساس غلام مصطفیٰ بشیر کے لیے نیا نہیں ہوگا کیونکہ وہ مسلسل تیسری بار اولمپکس مقابلوں میں شرکت کررہے ہیں اور اس بار ان کا ہدف میڈل کا حصول ہے۔

غلام مصطفیٰ بشیر پہلے ہی 2022ء ورلڈ چیمپیئن شپ کے مینز 25 میٹر ریپڈ فائر پسٹل میں کانسی کا تمغہ جیت کر پاکستان کے لیے شوٹنگ کا پہلا تمغہ حاصل کر چکے ہیں۔

تجربہ کار شوٹر شاندار طریقے سے کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے عالمی درجہ بندی میں 18ویں نمبر پر پہنچ چکے ہیں۔ ان صلاحیتوں کو دیکھ کر تعجب کی کوئی بات نہیں کہ انہوں نے شوٹنگ میں کریئر شروع کرنے کے محض دو سالوں میں ہی یہ مقام حاصل کرلیا جس کے لیے دیگر ایتھلیٹس کو 4 یا 5 سال لگ جاتے ہیں۔ غلام مصطفیٰ کہتے ہیں، ’ایسا کرنا قدرے غیر معمولی محسوس ہوتا ہے‘۔

گزشتہ دہائی میں پاکستانی شوٹر کے طور پر غلام مصطفیٰ بشیر نے گلفام جوزف اور کشمالہ طلعت جیسے نئے کھلاڑیوں کو ابھرتے دیکھا ہے جو ان کے مقابلے میں بہت کم عمری میں اس کھیل میں اپنا ڈیبیو کرچکے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ’میں چاہتا ہوں کہ ہماری اگلی نسل یاد رکھے کہ ہم کون ہیں کیونکہ اگر ہم مشعل کسی اور کے ہاتھ میں نہیں تھمائیں گے تو اس کھیل کی شمع ہمارے ساتھ ہی بجھ جائے گی۔ اس کھیل اور اس کی شان کے بارے میں کوئی نہیں جان پائے گا‘۔

جہاں وہ پاکستان میں اعلیٰ ترین تربیتی سہولیات اور آلات کے لیے شکر گزار ہیں، وہیں غلام مصطفیٰ اپنے معمولی سے خاندانی پس منظر کے بھی بے حد مشکور ہیں۔

’اگر آپ کو اچھا کوچ، بہترین سہولیات، وہ ہر چیز مل جاتی ہے جو آپ چاہتے ہیں تو آپ کی تمام جدوجہد ختم ہوجائے گی اور پھر آپ کے پاس ایسا کوئی مقصد نہیں ہوگا جس کے لیے آپ محنت کریں‘۔

گلفام جوزف

10 میٹر ایئر پسٹل مکسڈ ٹیم ایونٹ، 27 جولائی | 10 میٹر ایئر پسٹل مین، 29 جولائی

گلفام جوزف دوسری بار اولمپکس مقابلوں میں شرکت کررہے ہیں۔

24 سالہ گلفام اس بار زیادہ پُراعتماد ہیں اور اس بار وہ ٹوکیو اولمپکس 2020ء میں نویں نمبر پر آنے کے بعد 10 میٹر ایئر پسٹل رینکنگ میں اوپر جانے کی کوشش کریں گے۔

غیر معمولی ٹیلنٹ رکھنے والے گلفام پاکستان میں شوٹنگ کی عالمی معیار کی سہولیات اور شوٹنگ فیڈریشن کے شکر گزار ہیں جس نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو اس مقام تک پہنچایا ہے۔

ساتھ ہی وہ مایوسی بھی محسوس کرتے ہیں کہ یہ اعلیٰ درجے کی سہولیات اتنی بہترین نہیں ہیں جتنی ہونی چاہئیں جس کی عکاسی پیرس میں پاکستانی ایتھلیٹس کی کم تعداد سے ہوتی ہے۔ پھر بھی وہ پُرامید ہیں کہ ٹیم میں ایتھلیٹس کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور پاکستان کھیلوں میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ واپس حاصل کرے گا۔

گلفام جوزف اپنے ٹیم کے دو ساتھیوں سے خوب متاثر ہیں جبکہ وہ کشمالہ طلعت کے لیے بھائیوں جیسے خصوصی جذبات بھی رکھتے ہیں۔

گلفام جوزف جنہوں نے تقریباً 21 سال کی عمر میں اولمپکس ڈیبیو کیا تھا، کہتے ہیں کہ ’میں کشمالہ میں مجھے اپنی جھلک نظر آتی ہے‘۔ گلفام اور کشمالہ کی جوڑی 10 میٹر ایئر پسٹل مکسڈ ٹیم ایونٹ میں حریفوں سے مدمقابل ہوگی۔ یہ جوڑی رواں سال ایشین شوٹنگ چیمپئن شپ میں کانسی کا تمغہ بھی جیت چکی ہے۔

کشمالہ طلعت— شوٹنگ

10 میٹر ایئر پسٹل خواتین، 27 جولائی | 10 میٹر ایئر پسٹل مکسڈ ٹیم، 29 جولائی | 25 میٹر پسٹل خواتین، 2 اگست

22 سالہ کشمالہ طلعت کا نام تاریخ میں درج ہوگا۔ وہ پاکستان کی پہلی خاتون ہیں جنہوں نے اولمپکس مقابلوں کے لیے براہ راست کوالیفائی کیا ہے۔

اپنے اولمپکس ڈیبیو میں وہ تین مقابلوں میں شرکت کریں گی جو پاکستانی دستے میں موجود کسی بھی کھلاڑی کی جانب سے سب سے زیادہ مقابلوں میں شرکت ہے۔ کشمالہ طلعت نے رواں سال کے آغاز میں ایشین شوٹنگ چیمپیئن شپ میں بھی ایسے ہی تین مقابلوں میں حصہ لیا تھا جس میں وہ کانسی اور چاندی کا تمغہ اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوئیں جبکہ انہیں پیرس اولمپکس میں شرکت کا پروانہ بھی مل گیا۔

طلعت کی فیملی (والدین، بہن بھائی، ٹیم کے ساتھی، کوچ) کو ان کی صلاحیتوں پر یقین تھا اور وہ جانتے تھے کہ وہ ایک نہ ایک دن اولمپکس میں شرکت ضرور کریں گی۔

کشمالہ طلعت گلفام جوزف اور غلام مصطفیٰ بشیر کی راہ پر چلیں اور خواتین ایتھلیٹس کے لیے راہ ہموار کی کہ وہ بھی اپنا اولمپکس کا خواب سچ کرسکتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں، ’کسی کھیل میں آپ صرف اسی وقت کامیاب کہلا سکتے ہیں جب اس میں خواتین برابر کی سطح پر شرکت کررہی ہوں یا مساوی بنیادوں پر کوالیفائی کررہی ہوں۔ اسی طرح آپ کسی چیمپیئن شپ میں کامیاب ہوسکتے ہیں‘۔

پاکستان میں صنفی عدم مساوات عام ہے لیکن کشمالہ طلعت اس فرق کو ختم کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔

احمد درانی—تیراکی

مینز 200 میٹر فری اسٹائل، 28 جولائی

200 میٹر فری اسٹائل کا قومی ریکارڈ توڑنے کے چار ماہ سے بھی کم عرصے کے بعد احمد درانی پیرس میں اپنا یہ کارنامہ دہرانا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’ظاہر ہے کہ اس میں اعصاب درکار ہیں لیکن میں واقعی پرعزم ہوں۔ مجھے پاکستان کی نمائندگی کا موقع ملنے پر فخر ہے‘۔

18 سالہ احمد درانی حالیہ اولمپکس میں شرکت کرنے والے سب سے کم عمر کھلاڑی ہیں۔ وہ امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچپن کے خواب کو سچ کر دکھائیں گے۔ اس کے پسندیدہ تیراک ٹوکیو 2020ء کے اولمپیئن حسیب طارق ہیں جنہوں نے ہم ’سب کے لیے راہ ہموار کی اور دیگر ایتھلیٹس کے لیے معیار قائم کیا‘۔

پیرس اولمپکس میں وائلڈ کارڈ کے ذریعے شامل ہونے والے احمد درانی امید کرتے ہیں کہ وہ 2028ء کے لاس اینجلیس اولمپکس میں براہ راست رسائی حاصل کریں گے۔

یہ ایک بڑا ہدف ہے جس تک کوئی پاکستانی تیراک ابھی تک نہیں پہنچ سکا ہے لیکن تقریباً 20 قومی ریکارڈ اپنے نام کرنے اور روزانہ چار گھنٹے کی ٹریننگ کے ساتھ اسکول کی پڑھائی کو متوازی کرنے والے احمد درانی ایک پُرعزم نوجوان ہیں۔

اس کا ایک اور ہدف جنوبی ایشیا کے ٹاپ 3 تیراکوں میں شامل ہونا ہے۔ اگر وہ اگلے سال ہونے والے ساؤتھ ایشین گیمز میں میڈل حاصل کرتے ہیں تو وہ اپنے اس مقصد کو حاصل کر لیں گے۔

احمد درانی کی فیملی بھی ان کا مقابلہ دیکھنے پیرس میں موجود ہوگی۔ وہ خود کو خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ وہ اپنا اولمپکس ڈیبیو اپنے سب سے بڑے مداحوں یعنی فیملی کے سامنے کریں گے۔ احمد کہتے ہیں، ’میں ان کی سپورٹ کے بغیر کبھی بھی اولمپکس میں شرکت نہیں کرپاتا۔ وہ پورے سفر میں میرے ساتھ رہے ہیں اور وہ اس وقت بھی میرے ساتھ ہوں گے جب میں فینش لائن پر ہوں گا‘۔

وہ تہہ دل سے اپنی والدہ کے مشکور ہیں جو صبح 4 بجے اٹھ کر انہیں سوئمنگ پریکٹس کرنے لے جاتی تھیں۔ ان کے خیال میں اولمپکس میں شرکت کا موقع ملنے پر خود احمد سے بھی زیادہ ان کی والدہ خوش تھیں۔

’میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ وہ یہ جان لیں کہ ان کی وہاں موجودگی میرے لیے کتنی اہمیت رکھتی ہے۔ میں ان کے بغیر یہاں نہیں ہوتا، وہ میری سب سے بڑی سپورٹ ہیں‘۔

جہان آرا نبی —تیراکی

200 میٹر فری اسٹائل، 28 جولائی

اولمپکس میں شرکت جہان آرا کے لیے ہمیشہ سے ایک لاحاصل خواب تھا۔ 8 سال، 26 بین الاقوامی تمغے اور ڈھیروں قومی ریکارڈ کے کے بعد ان کا اولمپک کا خواب آخرکار حقیقت بن چکا ہے۔

انہیں پیرس مقابلوں میں 200 میٹر فری اسٹائل تیراکی میں کارکردگی دکھانے کا موقع ملے گا جس میں حالیہ برسوں میں وہ بار بار قومی ریکارڈ قائم اور توڑ چکی ہیں۔

عالمی ایکواٹکس اسکالرشپ حاصل کرنے کے بعد جہان آرا نبی کے لیے اولمپکس میں شرکت کا خواب حقیقت پسندانہ ہوگیا تھا۔ اس اسکالر شپ نے انہیں تھانیا پورہ میں تربیت حاصل کرنے کی اجازت دی جوکہ تھائی لینڈ کا ایک اعلیٰ تربیتی مرکز ہے جہاں باصلاحیت تیراکوں کو عالمی معیار کے کھلاڑی بنایا جاتا ہے۔

گزشتہ پانچ سال تھائی لینڈ میں رہائش سے جہان آرا کو بہت فائدہ پہنچا۔ وہاں رہ کر انہیں علاقائی مقابلوں میں شرکت اور تربیت کے زیادہ مواقع ملے جو کہ کم سہولیات والے پاکستان میں انہیں میسر نہ ہوتے۔

پیرس اولمپکس جہان آرا کے لیے ایک سنہری موقع ہے کہ جہاں وہ اپنے والدین کے سامنے تیراکی کریں گی کہ جنہوں نے 3 سال کی عمر میں انہیں تیراکی سے متعارف کروایا تھا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔