پاکستان

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پنجاب کے اپوزیشن لیڈر کو ڈی سیٹ کردیا گیا

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرکا عہدہ خالی ہے، اپوزیشن لیڈر سنی اتحاد کونسل سے بنا اب اس جماعت کا کوئی وجود نہیں، سنی اتحاد کونسل کے ارکان پی ٹی آئی میں جا چکے ہیں، اسپیکر پنجاب اسمبلی
|

پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک احمد خان نے سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کی روشنی میں صوبائی ایوان میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ خالی قرار دے دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس کے دوران اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر کو ایوان میں سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) کی سیٹوں کی بنیاد پر دفتر دیا گیا تھا اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ پلیٹ فارم اب موجود نہیں رہا، جس نے سنی اتحاد کونسل کی پارلیمانی حیثیت چھین لی۔

انہوں نے اعلان کیا کہ سنی اتحاد کونسل کے اراکین، جنہوں نے اپوزیشن لیڈر کے لیے نام تجویز کیا تھا، اب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں چلے گئے ہیں، اس لیے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ خالی ہو گیا ہے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دے دیا۔

یہ فیصلہ سنی اتحاد کونسل کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے خواتین اور غیر مسلموں کے لیے مخصوص نشستوں سے انکار کے خلاف دائر کی گئی اپیلوں کے ایک سیٹ پر آیا۔

پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے پارٹی کا انتخابی نشان ’بلا‘ چھن جانے کے بعد 8 فروری کے عام انتخابات میں آزاد حیثیت سے حصہ لیا تھا اور پھر سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی تھی۔

اگرچہ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی کا فیصلہ محض سیاسی بیان بازی ہے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شہزاد شوکت اور سینئر وکیل مبین قاضی نے کہا کہیہ قدم عدالتی فیصلے کے مطابق ہے۔

خیال رہے کہ مئی کے شروع میں اسپیکر ملک احمد خان نے مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی 24 خواتین اور 3 اقلیتی ایم پی ایز کو معطل کر دیا تھا اور سپریم کورٹ کی جانب سے ایس آئی سی/پی ٹی آئی کے علاوہ دیگر جماعتوں کو مخصوص نشستیں مختص کرنے کے ای سی پی کے فیصلے کو معطل کرنے کے بعد انہیں ایوان کی کارروائی میں شامل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔

پریس کانفرنس کے دوران اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کا کہنا تھا کہ کہ ملک کی سلامتی، خوشحالی کی خاطر سب کو ملکرکام کرنا ہوگا، انتشار اور نفرت کی سیاست کو دفن کرنا ہوگا، انتشار اور نفرت کی سیاست کو دفن کرنا ہوگا، ملک کی سلامتی اور خوشحالی کی خاطر سب کو ملکرکام کرنا ہوگا۔

ملک احمد نے کہا کہ اسمبلی کی کارروائی کا70فیصد وقت اپوزیشن کو دیا، گالم گلوچ اور نفرت کی سیاست کسی کے حق میں نہیں، گالم گلوچ کرنے والوں کی اسمبلی رکنیت معطل کرسکتاہوں۔

انہوں نے کہا کہ 2014 سے ملک میں عدم استحکام کی میخیں گڑی، آج تک ملک میں استحکام نہیں آسکا، میں کسی جماعت کی نمائندگی نہیں کر رہا، صرف اس ایوان کی بگڑتی صورتحال کے ذمے داران کا تعین کرکے بتا رہا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسمبلی کے طریقہ کار کی خلاف ورزی نہیں کرنے دوں گا، آپ اپنی تربیت پر بھی غور کریں، یہ غنڈہ گردی، یہ زیادتی، یہ گالم گلوچ قابل برداشت نہیں، اسمبلی کی کارروائی کا70فیصد وقت اپوزیشن کو دیا، تنقید کریں، سخت سے سخت بات کریں، جو کہنا چاہتے ہیں کہیں، لیکن گالیاں دینے کے لیے آپ کو ایوان کا فلور نہیں دے سکتا، کسی کی بہن، بیٹی یا بہو کے خلاف غلیظ زبان کا استعمال شرمناک ہے۔

کیس کا پس منظر

6 مئی کو سپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر تے ہوئے معاملہ لارجر بینچ کو ارسال کردیا تھا۔

3 مئی کو ‏پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔

4 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے 28 فروری کو درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کےسیکشن 104 کےتحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔