کاروبار

وزارت توانائی کا تیل کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کرنے کیلئے فریم ورک کا مطالبہ

وزارت توانائی نے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کے نام مراسلے میں تیل کی قیمتوں کے تعین کی ذمہ داری پیٹرولیم کی صنعت کےحوالے کرنے کیلئے جلد طریقہ کار طے کرنے کی ہدایت کی۔

وزارت توانائی نے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کو پیٹرولیم کی قیمتوں کے تعین کی ذمہ داری تیل کی صنعت کو منتقل کرنے کے لیے فریم ورک کو حتمی شکل دینے کی ہدایت کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز جاری کیے گئے ایک مراسلے میں وزارت توانائی نے اوگرا کے چیئرمین کو ہدایت کی کہ وہ آج (جمعرات) کو ایک اجلاس طلب کریں جس میں پیٹرولیم مصنوعات کو ڈی ریگولیٹ کرنے کے مضمرات اور آگے بڑھنے کے طریقے پر تبادلہ خیال کیا جائے۔

خط میں وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو قیمتوں کے تعین کی ذمہ داریاں سونپنے کی ہدایت کا حوالہ دیا گیا تھا، لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ دو اہم اسٹیک ہولڈرز (او ایم سیز اور ڈیلرز) کو اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا۔

فی الحال، ملک میں استعمال ہونے والے 8 پیٹرولیم ایندھن میں سے 4 ڈی ریگولیٹ ہیں، جن میںفضائیہ اور ہوائی جہازوں کے لیے جیٹ فیول، ہائی آکٹین، اور فرنس آئل شامل ہیں، جب کہ ریگولیٹڈ مصنوعات میں پیٹرول، ہائی اسپیڈ ڈیزل، لائٹ ڈیزل آئل، اور مٹی کا تیل شامل ہیں۔

آئل کمپنیز ایڈوائزری کمیٹی (او سی اے سی) طویل عرصے سے پیٹرولیم فیول سیکٹر کے مرحلہ وار ڈی ریگولیشن کی وکالت کررہی ہے، جس کا آغاز ایل ڈی او اور مٹی کے تیل سے شروع کیا جائے، اگست 2022 میں، حکومت نے اعلان کیا تھا کہ تیل کی صنعت کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مقرر کرنے کے لیے مکمل آزادی دی جائے گی، اس سال یکم نومبر سے ڈی ریگولیشن میکانزم کو نافذ کیا جائے گا۔

آئل مارکیٹنگ کمپنیاں باقی ایندھن کو ڈی ریگولیٹ کرنے کی حمایت کرتی ہیں، تاہم ڈیلرز بشمول پیٹرول پمپ مالکان، اس اقدام کی شدید مخالفت کررہے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ ڈی ریگولیشن ان کے کمیشن کو او ایم سی کے کنٹرول میں دے دے گی۔

فی الحال او ایم سیز پیٹرول اور ڈیزل دونوں کے لیے 7.87 روپے فی لیٹر کا مارجن رکھتے ہیں، جب کہ ڈیلر تقریباً 8.70 روپے فی لیٹر کماتے ہیں۔

حالیہ وفاقی بجٹ کے بعد او ایم سی اور ڈیلرز دونوں کی جانب سے اپنے مارجن کو بڑھانے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے، ایسے میں وزارت توانائی نے آج کے اجلاس میں کسی بھی اسٹیک ہولڈر گروپ کے نمائندوں کو شامل نہیں کیا، جس کی صدارت وزیر توانائی مصدق ملک کریں گے۔

صنعت کے ماہر اور ایک بین الاقوامی او ایم سی کے سابق سینئر ایگزیکٹو عابد ابراہیم نے ڈان کو بتایا کہ حکومت اس معاملے پر ابہام کا شکار ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈی ریگولیشن کا مطلب ہے کہ او ایم سیز اور ڈیلرز دونوں کے لیے مارجن سیٹ کرنے کے لیے کوئی سیٹ فارمولہ نہیں ہے، آئی ایف ای ایم یا فریٹ مارجن ہر کمپنی کے لیے آزاد ہونا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ڈی ریگولیشن کا ایک نتیجہ ملک کے مختلف حصوں اور مختلف کمپنیوں کے اسٹیشنوں کے درمیان پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں فرق کے طور پر آسکتا ہے، لیکن مثبت پہلو یہ ہے کہ بہت سی کمپنیاں معیار پر توجہ مرکوز کریں گے، جو بہتر ایندھن کے لیے زیادہ قیمت ادا کرنے کے خواہشمند صارفین کو راغب کریں گی۔

دریں اثنا، او ایم سیز کے کچھ عہدیداروں نے کہا ہے کہ پٹرولیم ڈویژن کی طرف سے ڈی ریگولیشن پر اجلاس بلانے کا اچانک اقدام کمپنیوں کے مارجن کو بڑھانے کے مطالبات کا نتیجہ ہے۔