پاکستان

موسمیاتی تبدیلی، حکومتی نااہلی کے باعث کپاس کی پیداوار ’آدھی‘ رہ گئی

گانٹھوں کی دستیابی میں کمی موسم کی خرابی اور کسانوں کو ان کی پیداوار کی اچھی قیمتیں ملنے کو یقینی بنانے میں حکومت کی ناکامی کی وجہ سے ہوئی ہے، ماہرین

پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ رواں سیزن کے دوران کپاس کی مجموعی پیداوار گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں تقریباً نصف فیصد کم ہو گئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ماہرین نے کہا ہے کہ گانٹھوں کی دستیابی میں کمی موسم کی خرابی اور کسانوں کو ان کی پیداوار کی اچھی قیمتیں ملنے کو یقینی بنانے میں حکومت کی ناکامی کی وجہ سے ہوئی ہے۔

ہفتہ کو جاری ہونے والی نئی فصل کے بارے میں سیزن کی اپنی پہلی رپورٹ میں ایسوسی ایشن نے بتایا کہ 15 جولائی تک جننگ فیکٹریوں میں پھٹی یا کچی کپاس کی تقریباً 4 لاکھ 42 ہزار گانٹھیں لائی گئیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ تعداد گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران جننگ یونٹس کے لیے دستیاب 858,007 گانٹھوں سے 48.48 فیصد کم تھی۔

رپورٹ کے بریک اپ سے پتا چلتا ہے کہ پنجاب نے اب تک ایک لاکھ 14 ہزار 375 گانٹھیں پیدا کی ہی جو کہ گزشتہ سال ایک لاکھ 98 ہزار 873 گانٹھوں سے 42.49 فیصد کم ہے، سیزن کے دوران، سندھ نے 3 کاھ 27 ہزار 666 گانٹھوں کی پیداوار کی جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران پھٹی کی 6 لاکھ 59 ہزار 134 گانٹھوں کی پیداوار سے نصف (50.29 فیصد) کم ہے۔

سندھ کا ضلع سانگھڑ جو کہ جننگ فیکٹریوں کا مرکز ہے، صوبے کی کل کپاس کا 80 فیصد اور پاکستان کی مجموعی پیداوار کا 60 فیصد پیدا کرتا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سندھ کے ساحلی علاقوں اور بلوچستان کے کچھ حصوں کے کاشتکار اپنی پیداوار کو ضلع میں منتقل کرتے ہیں۔

اس سیزن میں اب تک ضلع میں جننگ یونٹس میں 2 لاکھ 63 ہزار 282 گانٹھیں آئیں ہیں جو کہ گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران 4 لاکھ 88 ہزار 234 گانٹھوں سے 46.07 فیصد کم ہے۔

پنجاب اور سندھ میں جننگ یونٹس نے کاشتکاروں سے 3 لاکھ 95 ہزار 695 گانٹھیں خریدی ہیں جو کل دستیاب پیداوار کا 89.51 فیصد ہے، ٹیکسٹائل ملوں نے جننگ فیکٹریوں سے صرف 3 لاکھ 74 ہزار 889 گانٹھیں خریدی ہیں، جبکہ پچھلے سیزن میں یہ تعداد 6 لاکھ 91 ہزار 731 گانٹھیں تھی۔

موسم کی خرابی سے فصلیں متاثر

کاٹن جنرز فورم کے چیئرمین احسان الحق نے کہا ہے کہ اس سال کپاس کی پیداوار میں نمایاں کمی کی ایک بڑی وجہ کاشتکاروں کو ان کی پیداوار کے لیے کم از کم 8 ہزار 500 روپے فی 40 کلو گرام ریٹ ملنے کو یقینی بنانے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے میں حکومت کی ناکامی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ منفی موسمی حالات نے بھی پیداوار کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ ملک میں فروری اور مارچ کے دوران درجہ حرارت میں نمایاں کمی کے ساتھ سردیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا، مئی اور جون میں زیادہ گرمی نے کپاس کی کاشت اور پیداوار کو متاثر کیا۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جننگ سیکٹر پر زیادہ ٹیکسوں کے نتیجے میں گزشتہ سال تقریباً 25 لاکھ گانٹھوں کی غیر دستاویزی فروخت میں اضافہ ہوا، جس سے حکومت ٹیکس چوری پر قابو پانے کے لیے جننگ فیکٹریوں میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم متعارف کرانے پر مجبور ہوئی۔

تاہم احسان الحق نے مزید کہا کہ کچھ علاقوں میں غیر دستاویزی کاروبار اب بھی جاری ہے کیونکہ حکومت نے ابھی تک ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو فعال نہیں بنایا ہے۔

کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بھی اس کا ذمہ دار موسمیاتی تبدیلی کو ٹھہرایا ہے کیونکہ غیر معمولی گرمی کپاس کے پھل کو متاثر کر رہی ہے۔

ان کے مطابق، فصلوں کی ابتدائی بوائی میں سست روی رہی جس کی وجہ سے لنٹ کی پیداوار میں بھی کمی آئی ہے۔

انہوں نے تخمینہ لگایا کہ کل فصل تقریباً 77 لاکھ گانٹھیں ہوںگی، جو اس سال حکومت کے ایک کروڑ 20 لاکھ گانٹھوں کے ہدف سے نمایاں طور پر کم ہے۔