کیا پابندی سے پی ٹی آئی کی مقبولیت کم ہو پائے گی؟
بے بسی کی حالت میں اٹھایا گیا یہ اقدام بڑے مسائل کھڑے کرسکتا ہے۔ ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کا حکومتی فیصلہ انتہائی احمقانہ اور خود اس کے لیے تباہ کُن ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ خودکشی سے کم نہیں۔
اب اس فیصلے پر عمل در آمد ہوگا یا نہیں لیکن اس کا حکومتی سطح پر اعلان کیا جاچکا ہے اور اس نے موجودہ سیاسی ڈھانچے کی بنیادوں کو ہلا دیا ہے جبکہ دوسری جانب حکمران اتحاد پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کو شکار ہے۔
عجیب منظر تھا کہ جب بوکھلاہٹ کا شکار وفاقی وزیر عطا تارڑ نے نہ صرف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی لگانے کے فیصلے سے متعلق آگاہ کیا بلکہ بانی پی ٹی آئی عمران خان اور سابق صدر عارف علوی کے خلاف غداری کے مقدمات چلانے کا بھی اعلان کیا۔ ان کی مایوسی اس وقت بھی واضح ہوئی کہ جب انہوں نے اپنا غصہ اعلیٰ عدلیہ پر نکالا اور ان پر جانبداری کا الزام عائد کیا۔ وہ اپنی پریس کانفرنس میں تذبذب کا شکار نظر آئے۔
لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے حق میں مخصوص نشستوں کے حالیہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو پریشان کیا ہے۔ ججز کا یہ فیصلہ، اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں چلنے والی موجودہ حکومت کے لیے بڑے دھچکے کی مانند ہے۔ عدالت عظمیٰ نے نہ صرف پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں اس کی مخصوص نشستیں دینے کا حکم دیا بلکہ انہیں ایک پارلیمانی جماعت بھی تسلیم کیا۔ ججز نے کوشش کی کہ وہ اپنے ان غلط فیصلوں کی کچھ حد تک تلافی کرسکیں کہ جنہوں نے 8 فروری کے انتخابات کو متنازع بنایا تھا۔
مخصوص نشستیں ملنے کے بعد پی ٹی آئی ایوانِ زیریں کی سب سے بڑی جماعت بن جائے گی۔ یہ شاید مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں اتحادی حکومت کی اکثریت پر اثرانداز نہ ہو لیکن دو درجن مخصوص نشستیں واپس لیے جانے سے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں ان کی دو تہائی اکثریت ختم ہوسکتی ہے جوکہ آئین میں ترمیم کے لیے درکار ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ کے فُل بینچ کا اکثریتی فیصلہ، اسٹیبلشمنٹ کی پی ٹی آئی کو دبانے کی کوششوں کے خلاف انتہائی مضبوط ثابت ہوا۔ علاوہ ازیں گزشتہ ہفتے مقامی سیشن عدالت کی جانب سے غیرشرعی نکاح کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ کی سزا کالعدم قرار دیے جانے کے فیصلے نے بھی اس ہائبرڈ نظام کو مزید کمزور کیا جوکہ لگتا ہے کہ اب اپنا کنٹرول کھو چکا ہے۔
اس سے پہلے بانی پی ٹی آئی پہلے ہی دو مقدمات میں بری ہوچکے ہیں جن میں انہیں 8 فروری کے انتخابات سے قبل قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان کی رہائی کو ناممکن بنانے کے لیے ان پر تازہ مقدمات بنائے جارہے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود جیل میں قید عمران خان ملک کے طاقتور ترین لیڈر ہیں جوکہ اسٹیلشمنٹ کے زیرِ تسلط حکومت کے لیے خطرہ ہیں۔ سوچے سمجھے بغیر پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ ہاتھ سے پھسلتے اقتدار پر قابض رہنے کی حکومتی بے چینی کی ایک اور علامت ہے۔ اس نے پورے نظام کو داؤ پر لگا دیا ہے۔
یہ تو واضح ہے کہ حکومت کے اس فیصلے کے پیچھے وہی اسٹیبلشمنٹ ہے جس نے ٹوٹ پھوٹ کا شکار حکمران اتحاد کو سہارا دیا۔ یقینی طور پر تین بار پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہونے والے نواز شریف نے اس فیصلے کی منظوری دی ہوگی جوکہ مسلم لیگ (ن) کے فیصلے کرتے ہیں۔ ستم ظریفی ہے کہ وہ رہنما جنہیں چند سال پہلے اقتدار سے برطرف کیا گیا تھا وہ اب خود اسٹیبلشمنٹ کے منصوبے میں اس کے آلہ کار ہیں۔ انہوں نے جیسے اپنی ذاتی سیاسی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
مسلم لیگ (ن) یہ دعوے کررہی ہے کہ پابندی کے فیصلے پر تمام حکمران جماعتیں ایک پیج پر ہیں لیکن کچھ جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے دیے جانے والے بیانات سے تقسیم واضح ہورہی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چند رہنماؤں نے کہا کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے فیصلے سے متعلق ان کی جماعت سے مشاورت نہیں کی گئی اور اس معاملے میں پی پی پی کی پوزیشن مبہم ہے۔ صدارت اور دیگر اہم آئینی عہدوں کے ساتھ پی پی پی کس طرح اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کو برداشت کرتی ہے، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے فیصلے کی حمایت کرنے سے پی پی پی کی جمہوری ساکھ پر سوالات کھڑے ہوسکتے ہیں جوکہ خود بھی اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کا شکار رہ چکی ہے۔ اس حوالے سے پی پی پی کو اپنی پوزیشن واضح کرنا ہوگی۔
مسلم لیگ (ن) کے فیصلے کو کسی بڑی جماعت کی حمایت حاصل نہیں، ایسے میں اسٹیبلشمنٹ تنہا ہے۔ اس بات کا امکان نہیں کہ پی ٹی آئی پر پابندی کے کسی ریفرنس کی عدالت عظمیٰ سے توثیق ہوپائے کیونکہ وہ تو پہلے ہی پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت قرار دے چکی ہے۔
ہمارے ملک کی تاریخ میں مرکزی سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دیے جانے کی چند مثالیں موجود ہیں۔ لیکن اس پابندی نے کبھی بھی پارٹی کی عوام میں حمایت اور مقبولیت کو ختم نہیں کیا۔ اس کی ایک مثال نیشنل عوامی پارٹی ہے جو پابندی کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے واپس آئی۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف کی ملٹری حکومت میں 2002ء کے انتخابات میں پی پی پی کو بھی سخت پابندیوں کو سامنا کرنا پڑا تھا اور اس نے انتخابات پی پی پی پارلیمنٹیرینز کے نام سے لڑے۔
اگر پی ٹی آئی پر پابندی لگ بھی جاتی ہے تب بھی ان کی عوامی حمایت میں ختم نہیں ہوگی۔ اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی کو انتخابی دوڑ سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ لوگوں کو اس کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ووٹ دینے سے روک نہیں پائے۔ اگر انتخابی نتائج میں پیرا پھیری نہ کی جاتی تو پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرتی۔ متنازع قانونی حیثیت کی حامل حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر اس کا مکمل انحصار، ملک میں سیاسی عدم استحکام کی اہم ترین وجہ بنا۔
پی ٹی آئی کو ختم کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ ملک کی سب سے طاقتور سیاسی قوت ہے۔ سپریم کورٹ کے تازہ ترین فیصلے نے پارٹی کو توانائی بخشی ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ وحکمران اتحاد کی تشویش میں اضافہ کیا ہے۔ پارٹی پر پابندی لگانے کا فیصلہ اور اس کے رہنماؤں پر غداری کے مقدمات حکومت کی بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتے ہیں جس سے خدشہ ہے کہ کمزور ہائبرڈ حکمرانوں کی جانب سے جمہوری عمل میں جو کچھ بھی باقی بچا ہے، اسے دبانے کے لیے سوچے سمجھے بغیر مزید اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
ممکنہ ایمرجنسی کے نفاذ کے حوالے سے بھی پُرزور بازگشت ہورہی ہے جس سے عدالت کے اختیارات میں کمی آئے گی۔ ملک میں آمریت کے گہرے سائے منڈلا رہے ہیں۔ ایسا کوئی اقدام ملک کے لیے تباہ کُن ثابت ہوسکتا ہے جسے پہلے ہی متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔
نہ صرف ہماری معیشت تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہے بلکہ ملک میں بڑھتے دہشت گرد حملے بھی قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں کہ جن میں فوجی اہلکاروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس وقت پاکستان کو تصادم کے بجائے سیاسی مفاہمت کی ضرورت ہے کیونکہ اسے سنگین خطرات کا سامنا ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔