کاروبار

حکومت کا آئی ایم ایف اہداف پورا کرنے کیلئے فنڈز روکنے کا فیصلہ

وزارت منصوبہ بندی وترقی رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) میں منظور شدہ ترقیاتی منصوبوں کیلئے صرف 15 فیصد فنڈز کی منظوری دے گی، وزارت خزانہ

وفاقی وزارت خزانہ نے وزارت منصوبہ بندی کے احتجاج کے باوجود عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے بنیادی اضافی اہداف کو پورا کرنے کے لیے فنڈز کے بیک لوڈڈ ریلیز کے ذریعے ترقیاتی اور جاری اخراجات کی وفاقی فنانسنگ روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ کے نوٹیفیکیشن میں بتایا گیا ہے کہ وزارت منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) میں منظور شدہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے صرف 15 فیصد فنڈز کی منظوری دے گی۔

اس کے بعد دوسری سہ ماہی (اکتوبر تا دسمبر) میں 20 فیصد، تیسری سہ ماہی (جنوری تا مارچ) میں 25 فیصد، اور چوتھی سہ ماہی (اپریل تا جون) میں 40 فیصد منظوری دی جائے گی۔

آئی ایم ایف کے اعلان کے مطابق، ہفتے کے روز منظور کیے گئے 7 ارب ڈالر کے نئے بیل آؤٹ پیکج کے تحت، حکومت نے آئی ایم ایف سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ’جی ڈی پی کا ایک فیصد کا بنیادی حکومتی سرپلس‘ کو یقینی بنائے گی۔

پی ٹی آئی حکومت نے بجٹ کے اجرا کے عمل کو مختصر کر تے ہوئے ایک ایسا طریقہ کار نافذ کیا جس کے تحت مالی سال کی پہلی ششماہی میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے کل سالانہ مختص رقم کا آدھا دستیاب ہوگا۔

اس میں پہلی سہ ماہی میں 20 فیصد ادائیگیاں شامل تھیں، اس کے بعد دوسری اور تیسری سہ ماہی میں 30 فیصد، اور بقیہ 20 فیصد آخری سہ ماہی میں شامل تھیں۔

پی ٹی آئی سے پہلے، یہ مشق تھی کہ پہلے 6 ماہ کے دوران 40 فیصد ترقیاتی فنڈز (20 فیصد پہلی اور 20 فیصد دوسری سہ ماہی) ، باقی 60 فیصد مالی سال کے دوسرے نصف حصے میں، ہر سہ ماہی میں 30 فیصد کی شرح سے دیے جاتے تھے۔

پلاننگ ڈویژن میں عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ بیک لوڈڈ ادائیگیوں والے پراجیکٹ پر عمل درآمد کی رفتار کو متاثر کرتی ہیں اور چھوٹی ریلیزز سال کے پہلے حصے میں ترقیاتی اسکیموں کو سست کر دیتی ہیں اور لاگت میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔

لہٰذا، ایک فرنٹ لوڈڈ تقسیم کا طریقہ کار قائم کیا گیا تھا تاکہ عمل درآمد کرنے والی ایجنسیوں کو مطلوبہ مدت کے اندر فنڈز کو مناسب طریقے سے استعمال کرنے کے لیے پیشگی ریلیز کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔

چند سال پہلے تک، پلاننگ کمیشن نقد منصوبوں کی بنیاد پر ترقیاتی اسکیموں کے لیے فنڈز کی منظوری دیتا تھا۔

تاہم، وزارت خزانہ ترقی کے لیے ادائیگیوں کو سست کرنے اور موجودہ اخراجات یا دیگر ذمہ داریوں کی فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بڑے فنڈز روکتی تھی، یہ پروجیکٹ میں تاخیر اور ان کی لاگت میں اضافے کی ایک اہم وجہ تھی۔

وزارت خزانہ اور منصوبہ بندی کے درمیان مسلسل تناؤ کی وجہ سے 2022 میں تقسیم کے طریقہ کار کو دوبارہ تبدیل کیا گیا اور پلاننگ ڈویژن نے مطلع کیا کہ بجٹ میں مختص ترقیاتی فنڈز پہلی سہ ماہی میں 20 فیصد کی شرح سے جاری کیے جائیں گے، اس کے بعد دوسری سہ ماہی میں 30 فیصد کی شرح سے جاری کیے جائیں گے، جب کہ تیسری سہ ماہی، اور باقی 20 فیصد ہر مالی سال کی آخری سہ ماہی میں جاری کیے جائیں گے۔

تاہم، وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف سے وابستہ بنیادی نقد اضافی ہدف کو یقینی بنانے کے لیے گزشتہ سال پالیسی میں دوبارہ تبدیلی کی، جس کے نتیجے میں مالی سال 2023-24 کے اختتام پر ترقیاتی اخراجات میں 230 ارب روپے سے زیادہ کی کمی آئی۔

وزارت منصوبہ بندی نے گزشتہ ماہ کے اوائل میں سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی اور قومی اقتصادی کونسل کو تحریری طور پر وزارت خزانہ کے فیصلے پر احتجاج کیا تھا۔

پچھلے ہفتے، وزارت خزانہ نے ادائیگیوں پر سخت کنٹرول کے ساتھ تازہ ہدایات جاری کیں کہ مئی اور جون میں محصولات کی وصولی میں کمی کی صورت میں اخراجات میں کمی کے لیے گنجائش رکھی جائے۔