اسرائیلی فوج کی بمباری جاری، غزہ کے کچھ علاقوں سے 60 لاشیں برآمد
جنگ زدہ غزہ کی پٹی کے کچھ علاقوں سے اسرائیلی فوج کے دستبردار ہونے کے بعد ان علاقوں سے 60 افراد کی لاشیں ملی ہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یہ لاشیں تل الحوا اور السنا کے اضلاع سے ملی ہیں۔
مقامی سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان محمود باسل نے بتایا کہ ابھی بھی تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے بڑی تعداد میں لوگ لاپتا ہیں اور اس ملبے کو ہٹا کر ان لاشوں تک پہنچنا ہمارے عملے کے لیے کافی مشکل ہے۔
اس سے غزہ کی وزارت صحت نے علاقے میں مزید 32 اموات کی اطلاع دیتے ہوئے کہا تھا کہ شہید ہونے والوں میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں جن کی لاشوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔
10ماہ سے غزہ کی پٹی میں جاری اسرائیلی وحشیانہ بمباری اور زمینی کارروائی میں اب تک 38 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے جبکہ ہزاروں افراد بمباری سے تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
یہ لاشیں اس وقت ملیں جب اسرائیلی فوج نے ان علاقوں سے دستبردار ہوتے ہوئے دیگر اضلاع کی جانب پیش قدمی کی اور شہریوں کو وہ علاقے چھوڑنے کا انتباہ جاری کیا۔
اسرائیلی فوج نے فضا سے ہزاروں پمفلٹ گرائے جس میں علاقے کو ’خطرناک جنگی زون‘ قرار دیتے ہوئے رہائشیوں کو فوری طور پر ان علاقوں سے انخلا کا حکم دیا جہاں اقوام متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد مقیم ہیں۔
7 اکتوبر سے مسلسل غزہ پر وحشیانہ بمباری کرنے والی اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ انہوں نے مزید 70 فضائی حملے کیے ہیں۔
فوج کا کہنا ہے کہ وہ رفح کے علاقے میں لڑ رہے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں اصل محاذ غزہ شہر ہے جہاں دو ہفتے سے جاری لڑائی نے شجاعیہ کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔
دوسری جانب روکنے کے لیے ثالثی کی کوششیں کرنے والے ممالک جلد از جلد کسی معاہدے اور جنگ کے خاتمے کے لیے دونوں فریقین سے رابطے میں ہیں۔
اسرائیل اور حماس ثالثی کی کوششیں کرنے والے امریکا، قطر اور مصر کے نمائندوں سے گزشہت چند ماہ سے مسلسل رابطے میں ہیں تاکہ جنگ کو روکنے کے ساتھ ساتھ حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے افراد کو بھی رہا کرایا جا سکے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو نیتو سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ککچھ مسائل کے باوجود مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے۔
واشنگٹن میں جاری سمٹ میں گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ چند مشکل پیچیدہ امور مذاکرات کی راہ میں حائل ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ پیشرفت ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ معاملات میں مثبت رجحان ہے اور میں اب معاہدہ طے پانے اور جنگ کے خاتمے کے لیے پرعزم ہوں۔