صحت

ماہرین نے لوپس کا نیا ممکنہ علاج دریافت کرلیا

لوپس کا کوئی مستند علاج موجود نہیں، تاہم ڈاکٹرز علاج اور بیماری کی شدت کو دیکھتے ہوئے مختلف ادویات سے اس کا علاج کرتے ہیں۔

امریکی ماہرین نے پہلی بار مدافعتی نظام کو نشانہ بنانے والی بیماری لوپس (Lupus) کا نیا پہلا باضابطہ علاج دریافت کرلیا۔

طبی جریدے نیچر میں شائع تحقیقی رپورٹ کے مطابق امریکی ماہرین نے لوپس کے 19 مریضوں کے خون کے نمونے لے کر ان کے خون کا موازنہ دیگر صحت مند 19 افراد سے کیا۔

ماہرین نے دونوں گروپوں کے افراد کے خون میں پائی جانے والی خرابیوں، انفیکشنز اور بیکٹیریاز کی نشاندہی اور شناخت کے بعد بیمار افراد کے خون کا لیبارٹری میں علاج کیا۔

ماہرین نے لوپس کے مریضوں کے خون کی جین ایڈیٹنگ کرنے سمیت ان میں بعض ایسے کیمیکلز ملائے جو مریضوں کے خون میں موجود بیکٹیریاز کو قابو کرنے کے لیے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

ماہرین نے مریضوں کے خون کی ایڈیٹنگ کرنے اور ان میں کیمیکلز ملانے کے بعد خون میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا۔

جائزے سے معلوم ہوا کہ خون کی جین ایڈیٹنگ کیے جانے اور ان میں بعض کیمیکلز کو ملائے جانے کے بعد مریضوں کا خون شفاف بن گیا اور اس میں لوپس کا سبب بننے والے کیمیکلز یا بیکٹیریاز صحت مند بن کر پروٹین تیار کرنے لگے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ طریقہ علاج کے تحت معلوم ہوا کہ اگر لوپس کے مریضوں کو خصوصی ادویات دی جائیں تو ان کے خون کے وہ سیلز یا کیمیکلز بہتر کام کرنے لگیں گے جو غلطی سے صحت مند خلیات پر حملہ کرنے لگتے ہیں۔

لوپس ایک خود مدافعتی نظام کی خرابی کی بیماری ہے، ایسی بیماریوں کو آٹو امیون ڈیزیز کہا جاتا ہے اور ایسی بیماریوں میں انسان کے اپنے خون کے صحٹ مند سیلز یا اجزا غلطی سے صحت مند خون پر ہی حملہ کردیتے ہیں، جس سے انسان میں خون کی کمی سمیت دیگر انفیکشنز اور بیماریاں ہونے لگتی ہیں۔

لوپس کا کوئی مستند علاج موجود نہیں، تاہم ڈاکٹرز علاج اور بیماری کی شدت کو دیکھتے ہوئے مختلف ادویات سے اس کا علاج کرتے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ لوپس کی تشخیص بھی بہت مشکل اور پیچیدہ عمل ہوتا ہے، اس کی تشخیص متعدد بلڈ ٹیسٹس، ایکسریز، الٹراساؤنڈز اور سی ٹی اسکینز کی مدد سے کی جاتی ہے۔

لوپس کی علامات بھی انتہائی مشکل ہوتی ہیں، یعنی اس بیماری کی علامات دیگر بیماریوں سے ملتی جلتی ہیں، اس لیے اس بیماری کی تشخیص بھی بروقت نہیں ہوپاتی اور یہ بیماری شدت اختیار کرنے پر نہ صرف انسانی جلد بلکہ دل، گردوں، پھیپھڑوں اور دماغ سمیت تقریبا تمام اعضا پر حملہ آور ہوتی ہے۔

اس بیماری کو سیسٹیمک لوپس ایریتیھمیٹوسس systemic lupus erythematosus (SLE) بھی کہا جاتا ہے۔

اس مرض میں مبتلا افراد کے چہرے سمیت جسم کے دیگر حصوں پر سرخ نشانات نمودار ہوتے ہیں، جنہیں عام طور پر خارش سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے، اس میں سر کے بال بھی جھڑتے ہیں جب کہ جسم کے مختلف حصوں میں سوزش ہونے سمیت سورج کی روشنی میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بعض مریضوں کو بخار، جوڑوں میں درد، سانس لینے میں مشکل سمیت سینے میں تکلیف بھی ہوتی رہتی ہے لیکن یہی علامات دیگر طبی پیچیدگیوں کی وجہ سے بھی ہوتی ہیں۔

برطانوی ماہرین کا مائیکرو ویو کی مدد سے ذیابیطس کا علاج کرنے کا دعویٰ

ورزش ہڈیوں کو کمزور ہونے سے بچانے میں بھی مددگار

ملٹی وٹامنز زندگی بڑھانے میں مددگار نہیں ہوتیں، تحقیق