عالمی یومِ آبادی: پاکستان کی آبادی میں مسلسل اضافہ اور بڑھتا ہوا طبقاتی فرق
آج دنیا بھر میں عالمی یومِ آبادی منایا جارہا ہے اور اس سال کی تھیم Interwoven Lives, Threads of Hope ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں انسانوں کی زندگیاں پہلے کی نسبت ایک دوسرے سے زیادہ جڑ گئی ہیں لیکن ساتھ ہی دنیا میں مساوات کی صورت حال ابتر ہے۔
دنیا بھر کے شہری بشمول پاکستانی بڑے پیمانے پر غفلت کا شکار ہیں حالانکہ ان کی زندگیاں ایک ایسے دائرے سے جڑی ہیں کہ جس سے خوش قسمت مراعات یافتہ شہری بھی منسلک ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) میں بیان کردہ عالمی ترقی کے ایجنڈے کے حصول اور 2030ء تک سب کے لیے ایک بہتر دنیا بنانے کی طرف پیش رفت کے اعداد و شمار پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایس ڈی جی کو پورا کرنے کا مقررہ وقت 2030ء ہے جو محض 6 سال دور ہے، ایسے میں سیکریٹری جنرل نے عالمی سطح پر طبقاتی فرق کو جانچنے کے لیے ڈیٹا جمع کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ کوئی شخص بھی زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہے۔
اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ پاکستان ایس ڈی جی کے حوالے سے اپنی پیش رفت کو دستاویز نہیں کرتا لیکن ہم زیادہ تر ترقیاتی شعبوں میں عدم مساوات کے اعداد و شمار جمع کررہے ہیں۔
ملک کے وفاقی ادارہ شماریات نے گزشتہ سالوں میں ایک نہیں بلکہ دو مردم شماری مکمل کی ہیں۔ جبکہ ادارہ شماریات مختلف سرویز کے ذریعے سالانہ ڈیٹا بھی جمع کرتا ہے جن میں گھرانوں کے اقتصادی سروے، افرادی قوت کا سروے، قومی سماجی اور رہن سہن کے معیارات جانچنے کے سروے و دیگر شامل ہیں۔ گمان ہوتا ہے کہ ادارہ شماریات اپنا زیادہ تر وقت ڈیٹا جمع کرنے میں لگا دیتا ہے اور اس کے پاس ان اعداد و شمار کو عوام کے ساتھ شیئر کرنے کا وقت نہیں ہوتا۔
2023ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار جن میں پاکستان کی آبادی کے حوالے سے اہم زمینی حقائق سامنے آنا تھے، اب تک جاری نہیں کیا گیا ہے۔ یہ تاخیر بڑے المیہ کی نشان دہی کرتی ہے کہ جہاں پاکستان کے 24 کروڑ عوام کے لیے صحت، تعلیم، روزگار اور دیگر بنیادی ضروریات کے اہم اقدامات کرنے والے فیصلہ سازوں میں اعداد و شمار کا تجزیہ اور انہیں استعمال کرنے میں آگاہی اور دلچسپی کا فقدان ہے۔
درحقیقت کمیونٹیز، اضلاع اور آبادی میں طبقاتی فرق کی عکاسی کرنے والے اعدد و شمار تیار ہیں جنہیں قابلِ رسائی بنایا جاسکتا ہے۔ تاہم جس چیز کا فقدان ہے وہ ڈیٹا کا تجزیہ، اس کی صداقت کو ثابت کرنے اور اس کے مطابق کام کرنے کی خواہش ہے۔
آبادیاتی کونسل کا حالیہ تجزیہ (بنیادی طورپر ادارہ شماریات کے موضع مردم شماری 2020ء پر مبنی ہے) ضلعی سطح پر کمزوریوں کو ظاہر کرتا ہے کہ اوسطاً دیہی پنجاب میں صحت کے مرکز 7 کلومیٹر، سندھ میں 25 کلومیٹر، خیبرپخونخوا میں 15 کلومیٹر جبکہ بلوچستان میں 51 کلومیٹر کے فاصلے پر قائم ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول اوسطاً 8 کلومیٹر دور واقع ہیں جبکہ بلوچستان میں فاصلہ 38 کلومیٹر تک طویل ہے۔
وقفے وقفے سے ادارہ شماریات کی جانب سے سماجی اقتصادیات کے اعدادوشمار اکٹھا کیے جاتے ہیں لیکن انہیں شاذو ناذر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ ادارہ شماریات کی ویب سائٹ قیمتوں، جانوروں کی تعداد اور اراضی کے رقبے سے لے کر تعلیم، صحت، قومی اکاؤنٹس وغیرہ تک ہر چیز کے بارے میں پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار فراہم کرتی ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ پاکستان میں وسیع پیمانے میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کے اعداد و شمار بھی فراہم کرے تاکہ یہ سامنے آسکے کہ آبادی کا بڑا حصہ بالخصوص بلوچستان کے اضلاع میں بہت سے لوگ زندگی کے مختلف شعبہ جات میں دیگر صوبوں کے شہریوں سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
ضلعی سطح پر کمزوریوں کو ظاہر کرنے والی رپورٹ میں ایک مثبت بات جو سامنے آئی وہ مواصلات کے شعبے میں تھی کہ جہاں پاکستان کے مخلتلف اضلاع میں موبائل فون کا استعمال 100 فیصد ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں وسیع پیمانے پر موبائل فونز کی دستیابی نے خاندانوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے میں مدد کی ہے جبکہ یہ ان لوگوں کے لیے بھی مددگار ثابت ہوئی ہے جوکہ چھوٹے پیمانے پر اپنا کاروبار چلاتے ہیں کیونکہ اس طرح وہ اپنے کلائنٹس سے روابط قائم کرسکتے ہیں۔
اگرچہ ہم مواصلاتی نظام، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے سے روابط قائم کررہے ہیں اور ایک دوسرے کی زندگیوں کا حصہ بن رہے ہیں لیکن وہیں معیارِ زندگی میں وسیع پیمانے پر تفاوت کی وجہ سے ہم بہ حیثیت قوم مزید تقسیم ہورہے ہیں۔
ہمیں ملک میں طبقاتی فرق کو ماپنے کے لیے اعداد و شمار کی ضرورت نہیں، اسے ہم اپنے اردگرد باآسانی دیکھ سکتے ہیں۔ اس کا مشاہدہ کرنے کے لیے حساسیت اور ہمدردی کے جذبے سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
اس کی جھلک ہم پاکستان کے لاتعداد لوگوں کے معیارِ زندگی میں دیکھ سکتے ہیں کہ جہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ خط غربت سے نیچے زندگی گزانے پر مجبور ہے۔ معاشرے میں بڑھتی غربت، امتیازی سلوک اور نا انصافی نے ہمیں اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔
ملک کی اشرافیہ کو چاہیے کہ وہ سیاست، موسم اور مہنگائی کے حوالے سے گفتگو کرنے سے وقفہ لیں اور معاشرے میں امیر اور غریب کے درمیان واضح تقسیم پر توجہ دیں۔ اس حوالے سے گھریلو ملازمین کے ساتھ ناروا سلوک ایک سنگین مسئلہ ہے۔ گھروں میں کام کرنے والے ملازمین کو اکثر ذلت، بے عزتی حتیٰ کہ تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے طے کیے جانے والے پائیدار ترقی کے اہداف میں خواتین کو بااختیار بنانے پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے جبکہ مجموعی طور پر انسانی حقوق کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔ اس کے باوجود اب بھی پاکستان میں خواتین (چند مراعات یافتہ خواتین کے علاوہ) سماجی اقتصادی اعتبار سے کمتر معیار کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جہاں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خواتین کو بیشتر حالات میں غذائیت کی کمی کا بھی سامنا رہتا ہے جبکہ وہ یکے بعد دیگرے ایسے حمل سے بھی گزرتی ہیں جن کی وہ منصوبہ بندی نہیں کرتیں۔ یہ ایسے حالات میں ہوتا ہے کہ جہاں انہیں صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات زندگی بھی دستیاب نہیں ہوتیں۔ بہت سی خواتین اپنے اور اپنی اولاد کے حوالے سے فیصلے کرنے کی صلاحیتوں سے بھی عاری ہوتی ہیں اور وہ بنیادی ضروریات زندگی کے حصول کے لیے جدوجہد کرتی رہتی ہیں۔
بچوں کے حقوق اور ان کی بہبود پائیدار ترقی کے اہداف میں اہم تصور کیے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان میں بچوں کی بڑی تعداد اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے۔ فرٹیلیٹی ریٹ زیادہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 70 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں جن میں سے تقریباً نصف بچے خاندانی منصوبہ بندی کے بغیر پیدا ہوتے ہیں اور وہ ایسے خاندانوں میں پیدا ہوتے ہیں جوکہ غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان بچوں کی بڑی تعداد کے غذائیت کی کمی کا شکار ہونے اور اسکول جانے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ اکثر بچے اگر ایک سال بھی زندہ رہ لیں تو وہ خوش قسمت تصور کیے جاتے ہیں۔
غربا کو اکثر اس طرح کے تبصروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ’ان لوگوں کے بچے بہت ہیں اور یہ اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتے‘۔ اگر صورت حال ایسی رہی تو ایک دور ایسا بھی آسکتا ہے کہ ان سے کہا جائے گا کہ اپنی غربت کے قصور وار وہ خود ہیں کیونکہ وہ غربت سے نکلنا نہیں چاہتے۔ ایسا رویہ انصاف پسند اور انسانی معاشرے کی اقدار سے متصادم ہے۔
ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے لاکھوں پاکستانیوں کو بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرنے میں ابھی ایک امید موجود ہے اور وہ ہمارے ملک کی قیادت، اشرافیہ اور شہریوں کے بہبود کے گروپس سے وابستہ ہے کہ وہ حالات کی سنگینی کے حوالے سے کب سنجیدہ ہوتے ہیں۔ ضمیر کو جھنجھوڑنے، بےحسی ختم کرنے اور ہمدردی پیدا کرنا ضروری ہے کیونکہ موجودہ پالیسیز لاکھوں پاکستانیوں کی پینے کے صاف پانی، تعلیم اور صحت تک رسائی کو روک رہی ہیں۔
فوری طور پر اصلاح نہیں کی گئی تو خدشہ ہے کہ 2030ء تک پاکستان اقوامِ متحدہ کی جانب سے طے کردہ پائیدار ترقی کے اہداف پر پورا اترنے میں ناکام رہے گا۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
لکھاری پاپولیشن کونسل پاکستان کی کنٹری ڈائریکٹر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔