ڈھکہ: بنگلہ دیش کی اعلیٰ عدالت نے آج منگل کے روز ایک سینیئر مذہبی رہنما کو پھانسی کی سزا سنائی ہے، جن پر 1971ء میں پاکستان سے آزادی کی جنگ کے دوران قتل کے الزامات تھے۔
بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کی اعلیٰ قیادت میں چوتھے بڑے لیڈر 65 سالہ عبدالقادر ملّا ملک کے وہ پہلے رہنماء ہیں جو سپریم کورٹ کی جانب سے مجرم قرار پائے ہیں۔
اس سے قبل عدالت نے ان رہائی کے لیے دائر ایک درخواست کو بھی مسترد کردیا۔
مقدمے کی سماعت چیف جسٹس مزمل حسین نے کی، جہنوں نے ملک میں جنگی جرائم میں ملوث رہنماء کی عمر قید کو سزائے موت میں تبدیل کردیا۔
پروسیکیوٹر زیاد المعلم نے عالمی خبر رساں ادارے ایف پی کو بتایا کہ عدالت نے عبدالقادر ملا کی عمر قید کو سزائے موت میں تبدیل کردیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کا چوتھا بڑا فیصلہ تھا۔
دفاع کے وکیل تجل اسلام کا کہنا ہے کہ ہم اس فیصلے سے حیران ہیں اور یہ جنوبی ایشیا کی عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ ایک ٹرائل کورٹ کی عمر قید کی سزا کو سپریم کورٹ نے سزائے موت میں تبدیل کردیا۔
یاد رہے کہ رواں سال فروری میں عبدالقادر ملا کو اس وقت عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی جب سزا میں نرمی سے سیکولر مظاہرین کی جانب سے تشدد اور مظاہرے کیے گئے تھے۔
کئی مہینوں کے ان احتجاجی مظاہروں میں مذہبی اور سیکولر گروپس میں بدامنی کی وجہ کم سے کم سو افراد ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد بین الاقوامی جرائم ٹریبیونل کی جانب سے عمر قید کی سز سنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
ہزاروں سیکولر نوجوان مظاہرین نے رواں سال سے قبل کئی ہفتوں تک ڈھاکہ میں واقع ایک اسکوائر پر احتجاج کرتے ہوئے عبدالقادر ملا کی پھانسی کا مطالبہ کیا تھا۔
ان مظاہرین نے عبدالقادر ملا کو جنگِ آزادی کے دوران ہزاروں معصوم لوگوں کے قتل کے ذمہ دار قرار دیا تھا۔
مظاہرین نے جرائم کے قانون میں ترمیم اور فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کے لیے پارلیمنٹ پر زور دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے سزائے موت سنانے کا مطالبہ کیا تھا۔
اس دوران اسلام پسندوں کی جانب سے ملک بھر میں مخالف مظاہرے کیے گئے اور الزامات کو سیاسی قرار دیا اور ان مظاہروں میں دوطرفہ تصادم دیکھنے میں آیا۔