ججز کے خلاف مہم: عدلیہ کو درپیش سب سے اہم چیلنج کیا ہے؟
ملکی صورت حال اس سے زیادہ نہیں بگڑ سکتی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چند ججز جنہوں نے عدالتی معاملات میں حساس اداروں کی مداخلت کے حوالے سے آواز اٹھانے کی ہمت کی تھی، اب ان کے خلاف ایسی مہمات چلائی جارہی ہیں کہ جن میں ان کی ساکھ پر سوالات کھڑے کیے جارہے ہیں۔
یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ججز کی کردار کشی کے پیچھے کون ملوث ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ بااثر عناصر اپنی مخالفت میں اٹھنے والی ہر آواز کو دبانا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ ان ججز کو بینچ اور بار کے ججز و وکلا کی مکمل سرپرستی و حمایت حاصل ہے۔
یہ معاملہ سوشل میڈیا پر ٹرولنگ سے شروع ہوا جہاں بالخصوص اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان چھ ججز میں سے دو کو نشانہ بنایا گیا جنہوں نے اس سال کے آغاز میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے مبینہ طور پر انہیں ہراساں کیے جانے کی تفصیلات دی تھیں۔
پھر کچھ افراد کی جانب سے دو ججز، جسٹس بابر ستار اور جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایات دائر کی گئیں کہ جن میں جج صاحبان پر من گھڑت الزامات عائد کیے گئے۔
بہ ظاہر اس اقدام کا مقصد حساس مقدمات کی سماعت کرنے والے دو ججز کو دباؤ میں لینا تھا۔ حال ہی میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کی قانون کی ڈگری پر بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ جسٹس طارق جہانگیری اسلام آباد ہائی کورٹ میں الیکشن ٹربیونل کی سربراہی کررہے ہیں۔ ہائی کورٹ کے معزز جج جو پہلے ایڈووکیٹ جنرل کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں، ان پر اس طرح کے شکوک و شبہات سے زیادہ مضحکہ خیز کچھ نہیں ہوسکتا۔ جبکہ موقع کی مناسبت سے یہ تمام الزامات مزید مشکوک صورت اختیار کررہے ہیں۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری وہی جج ہیں جو مسلم لیگ (ن) کے اراکین قومی اسمبلی کے انتخاب کے خلاف اپیلوں کی سماعت کررہے ہیں۔
اسی طرح جسٹس بابر ستار آڈیو لیکس کے مقدمے کی سماعت کررہے ہیں۔ ممکنہ طور پر شاید انہوں نے حساس اداروں کے غیرمجازی فون ٹیپ کرنے پر سوال اٹھا کر کچھ حلقوں کو ناراض کیا۔ کچھ وقت پہلے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط میں جسٹس بابر ستار نے لکھا کہ ان سے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے سینیئر اہلکار نے کہا تھا کہ وہ ان الزامات کی پیروی نہ کریں۔ درخواست واپس لینے سے پہلے انٹیلی جنس بیورو نے جج کو کیس سے دستبردار ہونے کو کہا تھا۔
فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور پیمرا پر 5، 5 لاکھ کا جرمانہ عائد کرتے ہوئے جسٹس بابر ستار نے ایجنسیز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا عندیہ دیا۔ یہ تعجب کی بات نہیں تھی کہ ان کے اس اقدام سے جسٹس بابر ستار کے خلاف سوشل میڈیا اور ان چند الیکٹرونک میڈیا چینلز پر مہمات کا آغاز ہوا جن کے مبینہ طور پر انتظامیہ اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مضبوط روابط ہیں۔
اس معاملے میں ملوث چند افراد کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے نوٹس بھی جاری کیے گئے۔ اہم پیش رفت یہ ہے کہ پیر کو کابینہ اجلاس میں حساس ادارے آئی ایس آئی کو کسی بھی ٹیلی کمیونیکیشن سسٹم کے ذریعے کالز ٹریس کرنے اور کالز روکنے کی اجازت دی گئی۔ اس فیصلے کے اثرات آڈیو لیکس کیس پر بھی مرتب ہوں گے۔
بدنیتی پر مبنی اس مہم کا نشانہ بننے والے ایک اور جج، جسٹس ملک شہزاد ہیں جو حال ہی میں سپریم کورٹ کے جج تعینات ہوئے ہیں۔ مانسہرہ سے تعلق رکھنے والی شخص نے ان کے خلاف درخواست دائر کی۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر وہ حساس ادارے کی عدالتی معاملات میں مداخلت کے خلاف بارہا آواز اٹھا چکے ہیں۔
انہوں نے سرگودھا میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے پریزائڈنگ جج کی طرف سے دائر ریاستی اہلکاروں کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر کارروائی شروع کی جس میں انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
جسٹس شہزاد ملک کے خلاف دائر درخواست کا موقع محل بھی مشکوک ہے جوکہ دو سال پیش آنے والی کار حادثے سے متعلق ہے جس میں مبینہ طور پر جسٹس شہزاد کے خاندان کا فرد ملوث تھا۔ اس ریفرنس کی ٹائمنگ بھی عجیب ہے۔ اس حوالے سے جہاں بہت سے لوگوں کو سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر شبہات ہیں وہیں وہ ججز کے خلاف مہم میں انتطامیہ کے مبینہ کردار پر بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔ اس تمام تر معاملے میں حکومت خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ درحقیقت بعض کابینہ وزرا اور مسلم لیگ (ن) کے اراکین کی جانب سے دیے جانے والے بیانات، کچھ میڈیا چینلز کی جانب سے چلائی جانے والی مہم کو تقویت دیتے ہیں۔
دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ججز کو ہراساں کرنے یا عدالتی معاملات میں انتظامیہ کی مداخلت کا سلسلہ بند نہیں ہوا اور نہ ہی اس کا کوئی حل سامنے آیا ہے۔ من گھڑت الزامات پر معزز جج صاحبان کا میڈیا ٹرائل، اس وقت آزاد عدلیہ کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ہے۔
یہ مذموم مہم نشان دہی کرتی ہے کہ ہمارا ملکی نظام کس قدر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے زیرِ سایہ ہے۔ جبکہ جمہوری عمل میں جو کچھ باقی بچا ہے، یہ اس کے لیے بھی خطرہ ہے۔ دھمکیوں کے خلاف ججز کی مزاحمت بلاشبہ قابلِ تحسین ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فُل بینچ نے ایف آئی اے اور دیگر وفاقی اداروں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائیوں کا آغاز کردیا ہے۔ عدالت نے متنبہ کیا ہے کہ اس مذموم مہم کے خلاف ادارہ جاتی ردعمل سامنے آئے گا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے بالکل درست نقطہ اٹھایا کہ پیمرا، پی ٹی اے اور ایف آئی اے کی ذمہ داری تھی کہ اس طرح کی مہمات پر لگام ڈالتیں۔ بار ایسوسی ایشنز بھی مہمات کا نشانہ بننے والے ججز کی حمایت کا اعلان کرچکی ہیں۔
تمام تر معاملے میں سب سے زیادہ تشویش ناک الیکٹرنک میڈیا کا کردار ہے جس کا استعمال ججز پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیا گیا لیکن انہوں نے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کردیا۔ اس نے یہ بھی ظاہر کیا کہ جعلی خبریں پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا کا بےدریخ غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ لیکن اصل سوال عدلیہ کے معاملات میں مداخلت اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مبینہ طور پر ججز کو ہراساں کیے جانے کے گرد گھومتا ہے۔ یہ سڑن ہمارے نظام میں جس گہرائی تک سرایت کرچکی ہے اس کا ہمیں اندازہ نہیں۔
اس حوالے سے سب سے اہم ذمہ داری عدالت عظمیٰ اور اس کے چیف جسٹس کی ہے کہ وہ عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کیسے کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہائی کورٹ کے 6 ججز کی جانب سے لکھے جانے والے خط پر اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب سیکیورٹی اسٹیلشمنٹ کی جانب سے عدالتی معاملات میں مداخلت اور ججز کو ہراساں کرنے کا معاملہ سامنے آیا ہو۔ لیکن 6 ججز کی جانب سے لکھا گیا خط تہلکہ خیز ثابت ہوا۔
ہچکچاہٹ کے بعد چیف جسٹس نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا اور اس مقدمے کی سماعت کے لیے ابتدائی طور پر 7 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔ بعدازاں فیصلہ ہوا کہ یہ مقدمہ فُل کورٹ بینچ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ لیکن اس پیش رفت کو تین ماہ گزر جانے کے باوجود مقدمے کی سماعت کا آغاز نہیں ہوا۔
اتنے اہم معاملے میں تاخیر باعثِ تشویش ہے۔ اس معاملے پر کارروائی نہ کرکے اسٹیبلشمنٹ اور انتظامیہ کو غیرقانونی عمل پر استثنیٰ فراہم کی جارہی ہے۔ اور اس کے خلاف آواز اٹھانے والے ججز کے خلاف چلائی جانے والے مذموم مہمات اسی کی ایک مثال ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے بلیک میلنگ اور دھمکیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا ہے، اب بال جیف جسٹس پاکستان کے کورٹ میں ہے کہ وہ اپنے ادارے کے تقدس و ساکھ کو کیسے برقرار رکھتے ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔