دنیا

پاکستان کے پاس دہشت گردی کے ثبوت ہیں تو دے لیکن حملہ جارحیت تصور ہو گا، ذبیح اللہ مجاہد

پاکستان کی سرزمین پر اندرونی مسائل انہیں خود حل کرنا ہوں گے، یہ ممکن نہیں کہ پاکستانی سرزمین پر کچھ ہونے کی صورت میں افغانستان کی ذمے داری ہو، ترجمان افغان حکومت

افغان حکومت کے ترجمان نے ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ اگر پاکستان کے پاس دہشت گردی کے حوالے سے کوئی ثبوت ہے تو ہمیں دیں، ہم خود کارروائی کریں گے لیکن افغانستان پر حملہ اور کارروائی جارحیت تصور ہو گا۔

یوٹیوب چینل ’خراسان ڈائریز‘ کو انٹرویو میں افغان ترجمان نے کہا کہ دوحہ میں ہونے والے پچھلی دو نشستوں میں ہم شریک نہیں تھے تو اس کے نتائج برآمد نہیں ہو سکے، اس تیسری نشست میں امارات اسلامی کے تمام قوانین و ضوابط کا خیال رکھا گیا اور یہ ہمارے لیے بڑی کامیابی ہے کہ اقوام متحدہ نے ہمارے مطالبات کو اہمیت دی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری دوسری بڑی کامیابی یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری کے مختلف ممالک نے ہم سے بات کی، اس نشست کے اہم نکات میں افغانستان میں بینکوں اور نجی شعبوں کی مضبوطی شامل ہے جبکہ اس سلسلے میں موجودہ رکاوٹوں کو دور کرنے پر بھی بات ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے افغانستان کی سرزمین سے منشیات کے مکمل خاتمے کی بھی بات کی کیونکہ ہم نے اس کے خلاف بھرپور کارروائیاں کی ہیں اور اس سے افغان شہری متاثر بھی ہوئے ہیں، اس سے روزگار کے مسائل جنم لیتے ہیں اور عام افغان کا اقتصاد متاثر ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے عالمی برادری کے سامنے اپنا موقف رکھا جسے انہوں نے سنا اور اس سے اتفاق کرتے ہوئے اس سلسلے میں ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن ہم ان فیصلوں کا عملی اطلاق چاہتے ہیں اور صرف باتوں تک محدود نہیں رہنا چاہتے۔

تجارت میں 2021 کے مقابلے میں 80فیصد اضافے کے حوالے سے سوال پر ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہم نے عالمی برداری کو اپنی اقتصادی پیشرفت سے آگاہ کیا اور انہیں بتایاکہ ہماری درآمدات، برآمدات اور کاروبار میں کافی حد تک بہتری آئی ہے، ہم نے اس پر کافی کام کیا ہے لیکن ابھی بھی یہ کافی نہیں ہے، جب بیبن الاقوامی سطح پر ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے تو حالات میں مزید بہتری آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہمارے تجارتی معاملات اچھے ہیں، پاکستان کے ساتھ تجارت باقی ملکوں کی نسبت زیادہ ہے، پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں لہٰذا ہم پاکستانی قوم اور حکومت سے کہنا چاہتے ہیں کہ سیاسی اور تجارتی معاملات کو الگ رکھنا چاہیے ورنہ اس سے سیاسی اختلافات بڑھیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے تجارتی معاملات دراصل سیاسی مسائل سے متاثر ہوئے ہیں، دونوں ملکوں کے تاجروں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ سیاست اور تجارت کو الگ رکھیں۔

داعش کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہاکہ داعش امارات اسلامیہ کے آنے سے پہلے افغانستان میں موجود تھی، ان کے ٹھکانے اور تربیت گاہیں بھی تھیں جن میں افغانیوں کی بھرتی کی جا رہی تھی لیکن ہم نے انہیں ختم کرنے کے لیے آپریشن کیے ہیں، ان کے تمام تربیتی ٹھکانے اور مراکز تباہ ہو گئے ہیں اور اس پر مسلسل کام چل رہا ہے۔

افغان حکومت کے ترجمان نے کہاکہ پاکستان کا مسئلہ 2001 سے چلتا آ رہا ہے جو ان کے آپریشنز کے ساتھ شروع ہوا، تحریک طالبان پاکستان پہلے سے موجود تھی، پاکستان میں پہلے سے بدامنی تھی اور یہ سلسلہ اب بھی چل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں امن ہمارے لیے انتہائی ضروری ہے، ہم نے بارہا پاکستان کو اپنی مدد کی یقین دہانی کرائی ہے، ان سے کہا کہ اگر تحفظات ہیں تو ہمارے ساتھ بات کریں، ہم کسی کے بھی خلاف افغان سرزمین استعمال نہیں ہونے دیں گے کیونکہ ہم نے جنگ دیکھی ہے اور ہم کسی بھی ملک میں یہ نہیں چاہتے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سرزمین پر اندرونی مسائل انہیں خود حل کرنا ہوں گا، یہ ممکن نہیں کہ پاکستانی سرزمین پر کچھ ہونے کی صورت میں وہ افغانستان کی ذمے داری ہو، افغان میں کوئی بھی شخص پاکستان کے اندر حالات خراب کرنا نہیں چاہتا۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وہ افہام و تفہیم سے معاملہ حل کریں اور ان معاملات پر کام کریں۔

پاکستان کی جانب سے افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے سوال پر ترجمان نے کہا کہ ہم نے بارہا کہا ہے کہ ہم پاکستان میں امن چاہتے ہیں البتہ انہیں اپنے اندرونی مسائل خود حل کرنے ہیں اور اسے افغانستان سے جوڑنا درست نہیں، اگر ان کے پاس کوئی ثبوت ہے تو ہمیں دیں، ہم خود کارروائی کریں گے اور پاکستان کے خلاف کارروائی کرنے والے کسی فرد کو نہیں چھوڑیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کو یقین دلاتے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین ان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی لیکن یہ کہنا کہ افغانستان پر حملہ اور کارروائی کریں گے تو ایسا کرنا جارحیت ہو گا، ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں اور افغان اپنے ملک میں کسی کی بھی جارحیت برداشت نہیں کریں گے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا افغان حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کرے گی تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر اس سلسلے میں پاکستان کی جانب سے پیغام آتا ہے تو ہم اس کے لیے تیار ہیں لیکن اگر وہ نہیں چاہتے تو ہم ان کے اندرونی مسائل میں دخل اندازی نہیں کریں گے۔