پاکستان

وزیراعظم کا افغان مہاجرین کی میزبانی کے بوجھ کو کم کرنے، مسئلے کے حل کیلئے عالمی ذمہ داری پر زور

عالمی برادری لاکھوں مہاجرین کی میزبانی سے پاکستان پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنے، اس مسئلے کے دیرپا حل کے لیے اجتماعی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے، شہباز شریف

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ چیلنجز کے باوجود پاکستان نے افغان مہاجرین کی انتہائی عزت اور وقار کے ساتھ میزبانی کی ہے، عالمی برادری افغان مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کی میزبانی کرنے سے پاکستان پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنے اور اس مسئلے کے دیرپا حل کے لیے اجتماعی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔

وزیر اعظم کی جانب سے ان خیالات کا اظہار اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) فلیپو گرانڈی سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کیا گیا۔

وزیراعظم نے یو این ایچ سی آر کے ساتھ پاکستان کی دیرینہ شراکت داری کا حوالہ دیتے ہوئے چار دہائیوں سے زائد عرصے سے افغان مہاجرین کی میزبانی میں اقوام متحدہ کی جانب سے پاکستان کی حمایت کو سراہا۔

وزیراعظم نے کہا کہ متعدد چیلنجز کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ افغان مہاجرین کی انتہائی عزت اور وقار کے ساتھ میزبانی کی ہے۔

شہباز شریف نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی برادری افغان مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کی میزبانی کرنے سے پاکستان پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنے کے لیے اور اس مسئلے کے دیرپا حل کے لیے اجتماعی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔

وزیراعظم نے اس سلسلے میں پاکستان کی کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے یو این ایچ سی آر پر زور دیا کہ وہ افغان مہاجرین کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ایک پائیدار حل کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کی محفوظ اور باوقار وطن واپسی حکومت پاکستان کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔

وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے مسئلے میں عالمی برادری پاکستان کو درپیش سماجی و اقتصادی چیلنجوں اور سلامتی کے خطرات کو مد نظر رکھے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر نے گزشتہ کئی دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کرنے پر حکومت پاکستان کو مثالی مہمان نوازی کے لیے خراج تحسین پیش کیا۔

انہوں نے وزیراعظم کو یقین دلایا کہ یو این ایچ سی آر افغان مہاجرین کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر 7 سے 9 جولائی 2024 تک پاکستان کے دورے پر ہیں۔

نگران حکومت نے گزشتہ سال اکتوبر میں سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر ملک میں غیرقانونی طور پر رہنے والے تمام غیر ملکیوں کی وطن واپسی کا اعلان کیا تھا، اس اقدام کا مبینہ طور پر مقصد ملک میں غیرقانونی طور پر رہنے والے افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجنا تھا لیکن حکام اس کی سختی سے تردید کرتے آئے ہیں۔

دستاویزات کے بغیر رہنے والے افغانوں مہاجرین کی وطن واپسی کا عمل یکم نومبر سے شروع ہوا تھا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

حکام نے بتایا تھا کہ ملک میں تقریباً 17 لاکھ غیر قانونی افغان باشندے ہیں جن میں سے زیادہ تر 40 سال سے پاکستان میں مقیم ہیں۔

افغان طالبان کی حکومت نے اس اقدام پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے مہاجرین کے معاملے کو ان کی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا ہے۔