پاکستان

ایف بی آر نے ٹیکس سال 2024 کے لیے نئے ریٹرن فارمز جاری کر دیے

ٹیلی کام سروسز تک رسائی ایک بنیادی انسانی حق ہے اور بہت سی دیگر بنیادی خدمات کے لیے ضروری ہے، ٹیلی کمیونیکیشن اہلکار

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس سال 2024 کے لیے تنخواہ دار افراد، ایسوسی ایشن آف پرسنز (اے او پیز) کمپنیوں اور کاروباری افراد کے لیے نئے ریٹرن فارمز جاری کردیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کی مطابق جمعرات کو جاری کردہ 2024 کے ایس آر او 949 کے ذریعے ان زمروں کے ریٹرن فارمز کی الیکٹرانک کاپیاں مطلع کی گئیں، اس نوٹیفکیشن کے ذریعے ایف بی آر نے انکم ٹیکس رولز میں ترامیم بھی کی ہیں۔

ایک اور نوٹیفکیشن ایس آر او 0950 کے ذریعے ایف بی آر نے ٹیکس سال 2024 کے لیے افراد کے لیے مینوئل انکم ٹیکس ریٹرن فارم بھی جاری کیے ہیں۔

2 لاکھ 10 ہزار سمز بلاک

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق ایف بی آر نے جمعرات کو کہا کہ انہوں نے ان 2 لاکھ 10 ہزار ایسے صارفین کے سم کارڈز کو بلاک کر دیا جنہوں نے ریونیو بریکیٹ کو وسیع کرنے کے لیے ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرائے ہیں۔

2022 میں 24 کروڑ سے زیادہ آبادی میں سے صرف 52 لاکھ افراد نے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرائے ہیں۔

ایف بی آر نے اپریل میں یہ حکم نامہ پاس کیا تھا اور اس کے بعد سے ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو 2 لاکھ 10 ہزار سم کارڈز کے کنکشن بلاک کرنے کے احکامات دیے تھے، تاہم بورڈ کے اعدا و شمار کے مطابق ان میں سے 62 ہزار سمز کو بعد میں بحال کر دیا گیا۔

ایف بی آر کے تعلقات عامہ کے اہلکار بختیار محمد نے کہا کہ ہم نے ٹیکس ادا کرنے والوں کی سمز کو بحال کر دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی رضاکارانہ طور پر سامنے نہیں آتا اور ٹیکس ادا نہیں کرتا، ہمیں لوگوں کے لیے ٹیکس ادا کرنے کے طریقے بنانا ہوں گے۔

ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے مطابق، پاکستان میں 19.2 کروڑ سے زیادہ سیل فون صارفین اور 4 ٹیلی کمیونیکیشن سروس فراہم کرنے والے ہیں۔

پاکستانیوں کو اپنے قومی شناختی نمبر کے ساتھ ایک سم کارڈ رجسٹر کرنا ہوگا، جو اکثر متعدد کنکشن کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

ٹیلی کمیونیکیشن کی چار کمپنیوں میں سے ایک کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ٹیلی کام سروسز تک رسائی ایک بنیادی انسانی حق ہے اور بہت سی دیگر بنیادی خدمات کے لیے ضروری ہے، جس میں معلومات، تعلیم اور ہنگامی خدمات تک رسائی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم حکام کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں، انہیں اس بات پر راضی کر رہے ہیں کہ وہ ٹیکس کی وصولی کو بڑھانے میں مدد کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کریں، کیونکہ اچانک سے لیے جانے والے اقدامات ان اہم خدمات کی فراہمی میں خلل ڈال سکتے ہیں۔

پاکستان اپنی کم آمدنی کی بنیاد کو بڑھانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے لیکن بڑی حد تک غیر دستاویزی معیشت کی وجہ سے اس میں رکاوٹ ہے۔

حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے مزید قرضوں کے لیے زور دے رہی ہے تاکہ اپنے کھاتوں میں توازن برقرار رکھا جا سکے لیکن قرض دینے والا چاہتا ہے کہ اسلام آباد اپنے وسائل کو متحرک کرنے کے لیے مزید کچھ اقدامات کریں۔

ڈیجیٹل حقوق کی کارکن فریحہ عزیز نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہر ایک جس کے پاس سمز ہیں وہ ٹیکس ادا کرنے والے زمرے میں آنے کے لیے اتنی کمائی نہیں کرتے، یہ ایک مضحکہ خیز حرکت ہے۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کی روزی روٹی ان کے فون سے جڑی ہوئی ہے، 4 ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں نے جون میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کو لکھے گئے خط میں متنبہ کیا تھا کہ ٹیکس جمع نہ کرنے والے سیل فون صارفین کے خلاف نئے ٹیکس اقدامات ’غیر عملی‘ اور ’ناقابل عمل‘ ہیں اور یہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو نقصان پہنچائے گی۔