پاکستان

الیکشن ٹریبونل: حمزہ شہباز کی کامیابی کے خلاف درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل طلب

حمزہ شہباز کے وکیل نے درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق اعترضات عائد کردیے۔

الیکشن ٹریبونل نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز کی این اے 118 سے کامیابی کے خلاف درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل طلب کرلیے۔

لاہور ہائیکورٹ کے الیکشن ٹریبونل میں این اے 118 سے حمزہ شہباز کی کامیابی کے خلاف دائر اپیل پر سماعت ہوئی، الیکشن ٹربیونل کے جسٹس انوار حسین نے عالیہ حمزہ کی درخواست پر سماعت کی۔

الیکشن ٹربیونل نے درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق فریقین سے دلائل طلب کردیے، جس پر حمزہ شہباز کے وکیل نے درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق اعترضات عائد کردیے،

حمزہ شہباز کے وکیل نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہدرخواست گزار نے درخواست کے ساتھ متعلقہ دستاویزات لف نہیں کی اور درخواست کے متعدد صفحوں پر دستخط بھی موجود نہیں ہیں، الیکشن ایکٹ کے تحت ان پیٹیشنز کو دیوانی انداز میں چلایا جانا چاہیے۔

جسٹس انوار حسین نے ریمارکس دیے کہ متعدد الیکشن پیٹیشن میں مشترکہ سوالات ہیں، ان کے جوابات چاہیے، کیا درخواست میں نوٹسز ہونے کے بعد اعتراض عائد ہوسکتا ہے، عام طور پر الیکشن ٹریبونل میں اعتراضات کی نوعیت معمولی ہوتی ہے۔

جسٹس انوار حسین نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت ٹریبونل کا طریقہ کار پرفیکٹ بنایا گیا ہے، لیکن یہ پرفیکٹ طریقہ کار پرفیکٹ نظام کے لیے ہے، جہاں پر ایک انتظامی ادارے پر ایک ہی نوعیت کے سنگین الزامات ہوں تو کیا ہمیں عمومی اعتراضات دیکھنے چاہیے۔

جسٹس انوار حسین نے استفسار کیا کہ الیکشن ایکٹ کیوں بنا اس کا مقصد کیا تھا، جمہوری سسٹم ہے عوامی نمائندے الیکٹ ہوکر آتے ہیں، اس جمہوری پراسیس کی کیا ویلیو رہ جاتی ہے جہاں ایسے الزامات ہوں اور ان کے جوابات نہ ملیں۔

جسٹس انوار حسین نے کہا کہ فلوریڈا والے الیکشن ہوں تو پھر اور بات ہے، وہاں ہم ایسے اعتراض دیکھ سکتے ہیں، یہاں ہر دوسرا الیکشن عدالت میں آتا ہے، اعتراض ہے کہ پیٹیشنز پر دستخط نہیں ہیں، کیا جج سائن کرنا نہیں بھول جاتا، کیا پارلیمنٹرینز نہیں بھول جاتے۔

حمزہ شہباز کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن ٹریبونل کا دائرہ اختیار بہت محدود ہے، جسٹس انوار حسین نے کہا کہ اب تو سپریم کورٹ نے بھی کہہ دیا کہ ایک سول جج کیس سنتے وقت آئین کی کتاب سامنے رکھے، اگر سول جج آئین کو دیکھ کر فیصلہ کرسکتا ہے تو پھر ٹریبونل کیوں نہیں۔