’عوام ریاست کی من مانی کے آگے ہمیشہ گھٹنے ٹیک دیتے ہیں‘
جہاں تک پارلیمنٹ کا تعلق ہے تو وہاں بجٹ منظور ہوچکا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس حوالے سے خوب اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور شور مچایا لیکن پھر خاموشی سے اس کے حق میں ووٹ دے دیا جبکہ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ایوان میں زیادہ شور نہیں مچا سکی کیونکہ وہ آپس میں لڑنے میں مصروف تھی۔
اور اس طرح مسلم لیگ (ن) نے کامیابی سے وہ بجٹ منظور کروا لیا جس پر ماضی قریب میں کسی بھی بجٹ سے زیادہ تنقید کی جارہی ہے، جبکہ ناقدین کو پارٹی کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ہر کوئی جانتا تھا کہ یہ بجٹ ’مشکل‘ ہونے والا تھا۔ بلاشبہ انہوں نے جو بات نظرانداز کردی وہ یہ تھی کہ ریاست، سیاستدان، بیوروکریسی اور ملٹری پر کوئی دباؤ نہیں بڑھا بلکہ واسطہ یا بالواسطہ ٹیکسوں کی صورت میں تمام بوجھ تنخواہ دار اور معاشی طور پر کمزور طبقے کے کاندھوں پر آیا۔
حکومتی محکموں میں اخراجات میں اضافہ ہوا، تنخواہوں اور پینشنز میں اضافہ دیکھا گیا جبکہ سرکاری ملازمین کو بڑی فیاضی سے بونس بھی دیے گئے۔ لیکن وہ لوگ جو ’ریاست‘ سے باہر ہیں، ان کے لیے اچھی خبر ان کی انٹرنیٹ اسپیڈ کی طرح ڈاؤن لوڈ ہورہی ہے۔ اُمید بہت کم ہے اور اسے حکومت میں شامل چند افراد ہی بھانپ سکتے ہیں۔
وزیرخزانہ کی اتوار کو ہونے والی حالیہ پریس کانفرنس پر غور کیجیے۔ انہوں نے کہا کہ پینشن اصلاحات اور تاجروں پر ٹیکس کے حوالے سے کام کیا جارہا ہے۔ اخراجات کم اور چند محکمے بھی بند کیے جائیں گے۔ صوبوں کو ذمہ داریاں (اخراجات کہنا مناسب ہوگا) منتقل کرنے پر بھی غور کیا جائے گا۔
یہ چند لوگوں کے لیے خوشی کا باعث بنے گا لیکن وہ لوگ جو ٹیکس نیٹ کی دلدل میں پھنسے ہیں، ان کے لیے یہ دنیا میں جہنم سے کم نہیں ہوسکتا۔
بجٹ تقریر کے بعد یہ وزیرخزانہ کی دوسری پریس کانفرنس تھی اور شاید انہیں احساس نہیں کہ وہ صرف ناقابلِ اعتبار عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے ہی ڈیل نہیں کررہے بلکہ پاکستان کے شہریوں سے بھی انہیں ڈیل کرنا ہوگا جوکہ حکومتِ پاکستان پر اتنا ہی کم اعتماد کرتے ہیں جتنا کہ حکومتِ پاکستان آئی ایم ایف پر۔ محمد اورنگزیب نے شاید ملک کی خدمت کے لیے اپنا پاسپورٹ اور نجی سیکٹر کی آسائشوں کو چھوڑ دیا ہو لیکن وہ پہلے ایسے وزیرخزانہ نہیں ہوں گے جو خدمت کے لیے سنجیدہ ہیں یا جنہوں نے عوام کو اچھے وقت کی آس دلائی ہو۔
انہیں شاید احساس نہیں کہ گزشتہ چند سالوں کا بوجھ ان کے کاندھوں پر ہے۔ تقریباً نصف درجن شخصیات اسی کرسی پر بیٹھیں جس پر آج وہ بیٹھے ہیں اور انہوں نے بھی اسی طرح کے وعدے کیے جو وہ آج قوم سے کرتے ہیں۔ 2018ء کے بعد سے لوگوں سے وعدے کیے گئے کہ یہ مشکلات وقتی ہیں کیونکہ حکومت ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کررہی ہے۔ لیکن یہ مشکلات ختم ہی نہیں ہورہیں اور نہ ہی ان کا کوئی حل سامنے آیا ہے۔
اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس بار لوگوں میں غم و غصہ زیادہ ہے جس سے حکومت غافل نظر آتی ہے۔ اگر غفلت نہیں تو اسے اور کیا کہا جاسکتا ہے؟ حکومت کو نظر رکھنے کی ضرورت ہے لیکن اسے اس کی سنگینی کا اندازہ نہیں۔ اس کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے حکومت کو لگتا ہے کہ ان اعداد سے کوئی معنی خیز فرق نہیں پڑے گا۔
دوسرے الفاظ میں وہ صورتحال میں بہتری لانے کے لیے چھوٹی چھوٹی کوششوں سے آغاز کرنے کے حوالے سے بھی غفلت برت رہی ہے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر وزیرخزانہ اپنی تقریر میں قومی اسمبلی کے عملے کے لیے تین ماہ کے بونس کا اعلان کیوں کرتے جبکہ وہ پوری بیوروکریسی کی تنخواہوں میں پہلے ہی نمایاں اضافے کا اعلان کرچکے ہیں؟
لیکن مسئلہ وزیرخزانہ اور حتیٰ کہ مسلم لیگ (ن) سے بھی بڑا ہے۔ پہلے سے ہی کمزور طبقے پر مزید معاشی دباؤ ڈال کر مخصوص طبقے کو معاشی تحفظ فراہم کیا گیا اور یہ ایک طرح سے 2018ء اور 2024ء کے انتخابات میں ہیرا پھیری کے اثرات ہیں۔
کمزور حکومتیں ان لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہتی ہیں جوکہ انہیں ووٹ دے کر منتخب کرسکتے ہیں بلکہ وہ انہیں تحفظ فراہم کرتی ہیں جو حکومتیں تشکیل دے رہے ہیں۔ اور اس سے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال اُبھر رہا ہے کہ کیا حکومتیں ایسے تشکیل دی جاتی ہیں، مراعات یافتہ طبقے کو تحفظ فراہم کرکے کیونکہ اگر عوام اپنے فیصلے خود کرنے لگے تو یہ لوگ خود کو غیرمحفوظ محسوس کریں گے؟ ادارہ جاتی اور انفرادی پسند یا ناپسند جو بیانیہ اور تجزیات تشکیل دیتی ہیں، وہ شاید ثانوی ترجیح ہے۔
اور شاید اسی کا براہِ راست تعلق اس امکان سے ہے کہ توانائی کے بلز میں بڑا اضافہ اور بھاری ٹیکسس کی وجہ سے عوام میں اشتعال پیدا ہوگا اور وہ سڑکوں پر مظاہرے کرسکتے ہیں۔
درحقیقت وہ لوگ جو بار بار اس امکان کا اظہار کرتے ہیں وہ پاکستانی عوام کی احتجاج کرنے کی صلاحیت پر بھی سوال اٹھاتے ہیں جوکہ ریاست کی من مانی کے آگےگھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ تاہم یہ تجزیہ دینے والے دونوں حلقے جنہیں عوام سے حکومت مخالف ردعمل کی توقع ہے اور جنہیں لگتا ہے عوام خاموشی سے قبول کرلیتے ہیں، یہ دونوں تجزیے ہی پنجاب سے زیادہ متعلقہ ہیں۔
لگتا ہے کہ وہ بلوچستان میں پیش آنے والے واقعات سے لاعلم ہیں جہاں ریاست کے ساتھ اختلافات نے دو تحریکوں کو جنم دیا ہے۔ ایک تحریک اگر پُرتشدد جدوجہد کررہی ہے تو دوسری جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے خاتون کی قیادت میں پُرامن انداز میں سڑکوں پر مظاہرے کررہی ہے۔
اسی طرح خیبرپختونخوا میں بھی سیاسی مظاہروں میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کا نام سامنے آرہا ہے۔
تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ نصف پاکستان میں پہلے ہی مختلف تحریکیں متحرک ہیں جو شاید اب یہ نہیں سمجھتیں کہ عوام کے معاشی اور سیاسی مفادات پر مذاکرات کرنے کے لیے پارلیمنٹ ایک مؤثر فورم ہے۔ یہ اہم ہے کہ یہ تحریکیں سیاسی مفادات کو ترجیح ضرور دیتی ہوں لیکن وہ معاشی پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کرتیں۔ بلوچستان کے عوام طویل عرصے سے شکایت کرتے آرہے ہیں کہ ان کے وسائل کو لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنے کی بجائے وفاق اسے اپنے مطابق استعمال کرتی ہے۔ پی ٹی ایم کے ابتدائی مطالبات میں املاک اور معاش کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کا مسئلہ بھی شامل تھا۔
تو یہاں بات یہ ہے کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سڑکوں پر مظاہرے اور عوامی اشتعال سے ریاست کے فیصلے میں تبدیلی آسکتی ہے تو وہ بنیادی طور پر یہ تسلیم کررہے ہیں کہ انتخابات، سیاسی جماعتوں کا رسمی ڈھانچہ اور پارلیمنٹ عام آدمی کی نمائندگی کرنے کی اہل نہیں۔ دوسرے الفاظ میں لوگوں کو اپنے مطالبات کی شنوائی کے لیے سڑکوں پر نکلنا ہوگا۔
بلاشبہ طویل عرصے سے ہماری سیاست زبوں حالی کا شکار ہے اور بجٹ اس کا ایک اور واضح ثبوت ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔