نجی بینکوں کے مقابلے میں سرکاری بینک زیادہ موثر ہیں، نئی تحقیق میں انکشاف
ایک نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ پاکستان میں سرکاری بینک، نجی بینکوں کے مقابلے زیادہ موثر ہیں، جب کہ سرکاری بینکوں کی حکمت عملی وقت کے ساتھ ان کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’پاکستان کی کمرشل بینکنگ انڈسٹری کی کارکردگی اور ہم آہنگی کے عمل پر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کے اثرات کا تجزیہ‘، کے عنوان سے یہ تحقیق گزشتہ ہفتے ’نیچر جرنل‘ میں شائع ہوئی۔
پاکستان میں ایس سی بیز (ریاست کے زیرکنٹرول بینک)، ملک کے اندر سماجی و اقتصادی ترقی، بینکنگ تک رسائی، اور کئی صنعتوں کو سہولت فراہم کرتے ہیں، جب کہ اسٹریٹجک، ترقی پر مبنی سرمایہ کاری پاکستانی ایس سی بیز کو وقت کے ساتھ ساتھ اپنی ای ایف ایف (کارکردگی) بڑھانے کی اجازت دیتے ہیں۔
یہ نتائج 29 کمرشل بینکوں کی کارکردگی کے ڈیٹاسیٹ کے مطالعہ سے اخذ کیے گئے ہیں، جن میں نجی بینک، ایس سی بی، اسلامی بینک، خصوصی مقصد کے بینک اور 2006 سے 2020 تک کے غیر ملکی بینک شامل ہیں، اس میں 2008 کے مالیاتی بحران، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ، کورونا وائرس اور اس عالمی وبا کی بحالی کے بعد کو کور کیا گیا ہے۔
محققین میں سے ایک محمد متین نوید نے ڈان کو بتایا کہ نیشنل بینک آف پاکستان جیسے ایس سی بیز اور صوبائی انتظامیہ کی ملکیت والے بینک حکومتی پروگراموں کو فنڈ دیتے ہیں۔
چین سے پی ایچ ڈی کرنے والے محمد متین نے بیجنگ سے ڈان کو فون پر بتایا کہ سرکاری منصوبے منافع بخش نہیں ہوتے بلکہ یہ سماجی بہبود کے لیے ہوتے ہیں اور ان منصوبوں سے طویل مدتی فوائد حاصل ہوتے ہیں، مثال کے طور پر، کسی پل یا دوسرے انفراسٹرکچر کے منصوبوں سے مختصرف مدت میں منافع حاصل نہیں ہوتا۔
ان نتائج کی توثیق پاکستان کے کمرشل بینکوں کے مروجہ طریقوں سے ہوتی ہے، جو خطرے سے پاک اور زیادہ منافع کمانے کے لیے اپنی لیکویڈیٹی کو سرکاری سیکیورٹیز میں رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں، نجی شعبے کے قرضے لینے میں کمی کے بعد، گزشتہ کچھ سالوں کے دوران نجی بینکوں نے حکومت کو ریکارڈ شرح سود کے ساتھ قرضے دینے کے لیے اپنے خزانے کھولے۔
بینکنگ کی کارکردگی پر ڈیجیٹلائزیشن کا اثر
متین نوید نے کہا کہ ان کی تحقیق کا مقصد تجرباتی ثبوت فراہم کرنا ہے کہ کس طرح ڈیجیٹلائزیشن نے پاکستانی بینکوں کی کارکردگی کو بہتر بنایا اور کس طرح ٹیکنالوجی کی ترقی نے کم کارکردگی والے بینکوں کو وقت کے ساتھ ساتھ اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے بینکوں کا ساتھ کھڑے ہونے میں مدد کی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے مطالعہ کو انٹرنیٹ پر مبنی ٹرانزیکشنز، اے ٹی ایم ٹرانزیکشنز اور پوائنٹ آف سیل ٹرانزیکشنز کے ڈیٹا سے اپنی تحقیق یہ جانچنے کے لیے بنائی کہ آیا یہ عوامل بینکوں کی کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں یا نہیں۔
تحقیق سے پتہ چلا کہ پاکستانی بینکوں کی مجموعی تکنیکی کارکردگی 74 فیصد تھی، جب کہ ان کے اسکیل کارکردگی 96 فیصد تھی۔
خالص تکنیکی کارکردگی( بینک مینیجرز کی دیے گئے وسائل سے بہترین کارکردگی نکالنے کی صلاحیت)، بینکوں کی 77 فیصد پر سامنے آئی۔
متین نوید نے بتایا ’اس کا مطلب ہے کہ اگر بینک مینیجرز کے پاس 100 روپے ہیں، تو وہ صرف 77 روپے استعمال کرنے کے قابل ہیں، بنیادی طور پر، ہمارے بینکنگ مینیجرز اپنی بہترین کارکردگی کی سطح سے 23 فیصد کم کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
96 فیصد اسکیل کارکردگی ظاہر کرتی ہے کہ بینکنگ سسٹم کے مختلف اجزاء، مثال کے طور پر، برانچیں، اپنی صلاحیت کو 4 فیصد کم استعمال کر رہی ہیں۔
ڈیجیٹلائزیشن کے تین پیرامیٹرز کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ اے ٹی ایم ٹرانزیکشنز کا ’پاکستان کی بینکنگ انڈسٹری پر انتہائی اہم اور مثبت اثر پڑتا ہے‘، کیونکہ اے ٹی ایم اب صرف نقد رقم نکالنے اور جمع کروانے سے زیادہ کا کام کررہے ہیں، صارفین اے ٹی ایم سے پیسے نکال سکتے ہیں، اس کے ذریعے جمع کرسکتے ہیں اور اپنا بیلنس چیک کر سکتے ہیں، جب کہ بینک اپنی خدمات کی پیشکش کو وسیع کر کے، صارفین کے مطالبات کو بہتر طریقے سے پورا کر سکتے ہیں اور ان کے برانچ کے وزٹ کو کم کرکے بینکنگ کی کارکردگی کو بڑھا سکتے ہیں۔