ٹیکسز سے بھرپور 18ہزار 877 ارب روپے کا آئندہ مالی سال کا بجٹ قومی اسمبلی سے منظور
قومی اسمبلی نے نئے قرض پروگرام پر عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مزید بات چیت سے قبل آئندہ مالی سال کے لیے حکومت کا بھاری ٹیکس سے بھرپور 18ہزار 877 ارب روپے کا وفاقی بجٹ منظور کرلیا جب کہ جنوبی ایشیا میں سب سے سست رفتار سے ترقی کرنے والا پاکستان بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے کوشاں ہے۔
فنانس بل25-2024 کی منظوری کے بعد ایوان میں ضمنی مطالبات زر کی منظوری دی گئی، قومی اسمبلی نے رواں مالی سال کے لیے 477 ارب چار کروڑ 43 لاکھ روپے سے زائد کے 25 مطالبات زر منظور کرلیے۔
قومی اسمبلی نے مالی سال 23-2022 کے لیے 740 ارب 72 کروڑ روپے سے زائد کے 53 ضمنی مطالبات زر منظور کیے جب کہ 141 ارب 20 کروڑ روپے سے زائد کے 26 اضافی مطالبات زر بھی منظور کیے گئے۔
بجٹ کی منظوری کے دوران اپوزیشن کی جانب سے واک آؤٹ کیا گیا جب کہ حکومتی ارکان نے ڈیسک بجاکر وزیرخزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کو مبارکباد دی۔
حکومت نے 2 ہفتے قبل ٹیکس بھرا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا جب کہ اپوزیشن جماعتوں خصوصاً پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی اس پر شدید تنقید کی گئی تھی۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے قومی اسمبلی میں فنانس بل پیش کیا جس کی وزیراعظم شہباز شریف نے توثیق کی تھی۔
حزب اختلاف کی جماعتوں، خاص طور پر سابق وزیراعظم عمران خان کے حمایت یافتہ اراکین پارلیمنٹ نے بجٹ کو مسترد کر دیا اور اسے شدید مہنگائی کا باعث قرار دیا۔
منگل کو پیپلز پارٹی جس نے ابتدائی طور پر بجٹ بحث کا بائیکاٹ کیا تھا، اس نے بھی فیصلہ کیا کہ وہ تحفظات کے باوجود فنانس بل کے حق میں ووٹ دے گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ ایک اور اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ-پاکستان (ایم کیو ایم-پی) کے اراکین نے بھی تنخواہ دار اور متوسط طبقے کے لوگوں پر ٹیکس عائد کرنے کے حکومتی اقدام پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اس بجٹ سے ملک میں مزید مہنگائی ہوگی۔
قبل ازیں وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے ایوان کو بتایا کہ ہمیں حقیقت پر بات کرنی چاہیے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کیسا ہے، کرنسی اسٹیبل ہے اور یہ ایسے ہی رہے گی، سرمایہ کار واپس آرہے ہیں، پچھلے مہینے غذائی مہنگائی 2 فیصد پر تھی۔
انہوں نے کہا کہ معیشت میں استحکام آیا ہے، ہم اس میں مزید بہتری لا رہے ہیں، گروتھ کی طرف جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح ساڑھے نو فیصد نہیں رہ سکتی، ہم اس کے متحمل نہیں ہوسکتے، جو ریلیف کی بات کرتے ہیں، اس کو ہم نے ساڑھے 13 فیصد پر لے جانا ہے، اس سلسلے میں لیکج ، کرپشن اور چوری کو روکنا ہے، ایف بی آر میں اصلاحات کرنی ہیں، اس کی ڈیجیٹلائزیشن کرنی ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات پر عائد لیوی میں اضافے کی تجویز قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش
وزیر خزانہ نے کہا کہ نان فائلرز کی والی اختراع ہے، میرے اوپر چھوڑا جائے تو یہ اختراع ملک میں فی الفور بند ہو جانی چاہیے، اس کے لیے ہم نے ایک بہت اہم قدم اٹھایا ہے، آئندہ سال کے لیے ہم نے نان فائلرز کے لیے ریٹس کو بہت بڑھادیا ہےتا کہ وہ تین چار بار سوچے کہ اس کو اس ملک میں ٹیکس ادا کرنا چاہیے یا نہیں۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہم نے ترقیاتی بجٹ ایوان میں پیش کردیا گیا، کمزور طبقات کے لیے جو بات ہوئی، اس میں کم از کم تنخواہ، یوٹیلٹی اسٹورز کی بات ہوئی ہے، ہم اس کو آگے لے کر جا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اسی طرح سے نجکاری کی بات کی جا رہی ہے، یہ دو سے تین سال کا منصوبہ ہے جس پر عمل در آمد کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھاکہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی، ریاستی اداروں میں اصلاحات، انرجی، پاور سیکٹر کی اصلاحات بھی مجموعی طور پر اس بجٹ کا حصہ ہیں اور یہ ہمارے مستقبل کے روڈ میپ کا حصہ ہیں۔
بعد ازاں پیٹرولیم مصنوعات پر عائد لیوی میں اضافے کی تجویز قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کر دی گئی۔
وزیر خزانہ نے فنانس بل میں ترامیم ایوان میں پیش کیں، پیٹرولیم مصنوعات پر عائد لیوی میں اضافے کی ترمیم بھی ایوان میں پیش کی گئی۔
ہائی اوکٹین پر 70 روپے فی لیٹر اور ای ٹن گیسولین پر 50 روپے لیوی ہو گی، ایک میٹرک ٹن ایل پی جی پر 30 ہزار روپے لیوی عائد کرنے کی تجویز ہے۔
بعد ازاں وفاقی حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل پرلیوی میں20 روپے تک اضافے کی تجویزواپس لے لی،فنانس بل کے مطابق پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل پرلیوی میں20روپے کے بجائے10 روپےفی لیٹراضافہ کردیا گیا۔
فنانس بل میں کہا گیاکہ پیٹرول اورہائی اسپیڈ ڈیزل پرلیوی کی حد60 سے بڑھا کر70روپے فی لیٹرکردی گئی، لائٹ ڈیزل پرلیوی50 روپے فی لیٹر سے بڑھا کر75 روپےکرنے کی تجویز واپس لے لی گئی۔
فنانس بل میں کہا گیا کہ لائٹ ڈیزل آئل پر لیوی کی بالائی حد50روپے فی لیٹر برقرار رہے گی، ہائی آکٹین پرلیوی50 روپےسے بڑھا کر75 روپے لٹر کرنے کی تجویز بھی واپس لے لی گئی، ہائی اوکٹین پرلیوی 50 روپےسے بڑھاکر 70 روپے فی لیٹر کردی گئی۔مٹی کے تیل پر لیوی50 روپے فی لیٹر پر برقرار رہے گی ،فنانس بل
۔۔۔۔۔۔۔۔
اراکین اسمبلی کی تنخواہوں، مراعات سے متعلق ترمیم کثرت رائے سے منظور
قومی اسمبلی نے اراکین کی تنخواہوں اور مراعات سے متعلق ترمیم کثرت رائے سے منظور کر لی، پیپلزپارٹی نے اراکین پارلیمنٹ کی مراعات بڑھانے سے متعلق ترمیم ایوان میں پیش کی، ارکان پارلیمنٹ تنخواہ و مرات ایکٹ میں ترمیم فنانس بل کے ذریعے کی جا رہی ہے ۔
پیپلز پارٹی کے عبد القادر پٹیل کی جانب سے پیش کردہ ترمیم کی منظوری کے بعد اراکین اسمبلی کا سفری الاؤنس 10روپے کلومیٹر سے بڑھا کر25روپے کر دیا گیا۔
ترمیم کے متن کے مطابق اراکین پارلیمنٹ کے بچ جانے والے سالانہ فضائی ٹکٹس استعمال نہ ہونے پر منسوخ کرنے کی بجائے اگلے سال قابل استعمال ہوں گے، اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات کا اختیار وفاقی حکومت سے لیکر متعلقہ ایوان کی فنانس کمیٹی کے سپرد کردیا گیا جب کہ اپوزیشن نے تنخواہوں اور مراعات سے متعلق پیپلز پارٹی کی ترمیم کی مخالفت کی۔
بین الاقوامی ایئرٹکٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 100فیصد سے زیادہ اضافہ
حکومت نے فنانس ترمیمی بل 2024 میں بین الاقوامی ایئرٹکٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 100فیصد سے زیادہ اضافہ کردیا گیا۔
حکومت نے بین الاقوامی سفر پر اکانومی کلاس میں ایف ای ڈی فی ٹکٹ ساڑھے 12ہزار روپےکردی, مڈل ایسٹ، افریقہ کے لیے بزنس کلاس،فرسٹ کلاس،کلب کلاس کی ایف ای ڈی فی ٹکٹ ایک لاکھ 5 ہزار روپے، یورپ کے لیے بزنس کلاس، فرسٹ کلاس،کلب کلاس کے لیے ایف ای ڈی فی ٹکٹ 2 لاکھ 10 ہزار روپے کردی۔
اس کے علاوہ امریکا کے لیے بزنس کلاس،فرسٹ کلاس،کلب کلاس کے لیے ایف ای ڈی فی ٹکٹ 3لاکھ 50ہزار روپےکردی گئی ہے، آسٹریلیا،نیوزی لینڈ کے لیے بزنس کلاس،فرسٹ کلاس،کلب کلاس کے لیے ایف ای ڈی فی ٹکٹ 2لاکھ 10ہزار روپے کردی گئی۔
فنانس ترمیمی بل میں ٹیکس کم کرنے کے بجائےمزید بڑھا دیے گئے
فنانس ترمیمی بل 2024 میں اسٹیشنری پر دی گئی سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کر دی گئی، اسٹیشنری پر سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کر کے 10 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے،مختلف برانڈز کی کلر پینسل کے سیٹ پر 10 فیصد سیلز ٹیکس، مختلف اقسام کے قلم کی سیاہی پر 10 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہوگا۔
اس کے علاوہ ربڑ، پنسل، شاپنرز پر 20 فیصد سیلز ٹیکس کی تجویز ہے، قلم، بال پین، مارکرز پر بھی 10 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔
مقامی سطح پر تیار کرنے کے لیے سولر پینل کے پارٹس کی درآمد پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ہو گی، بیک شیٹ فلم، کنیکٹر، کارنر بلاک، پولی تھین کمپاؤنڈ اور پلیٹ شیٹ پر بھی سیلز ٹیکس کی چھوٹ ہوگی، پارٹس آف سولر انورٹر پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ہو گی، پارٹس آف لیتھیم بیٹریز پر بھی سیلز ٹیکس نہیں ہوگا۔
ریئل اسٹیٹ کی جائیدادوں کی فروخت پر پہلی مرتبہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کردی گئی، بلڈر اور ڈیویلپر کی کسی بھی لانچ کردہ پروڈکٹ پر 3 فیصد ایف ای ڈی عائد ہوگی، کمرشل پلاٹ فروخت کرنے پر ایف اے ڈی عائد ہوگی، فروخت کرنے والا اگر فائلر ہوا تو تین فیصد ایف اے ڈی دے گا، اگر لیٹ فائلر ہوا تو پانچ فیصد ایف اے ڈی دے گا ، نان فائلر ہونے کی صورت میں سات فیصد ایف اے ڈی دے گا۔
اسلام اباد میں سیکشن سیون ای کے تحت فارم ہاؤس اور بڑے گھروں پر 5 لاکھ روپے کیپیٹل ویلیو ٹیکس عائد کردیا گیا، اسلام آباد میں 2 ہزار سے 4 ہزار گز تک کے فارم ہاؤس اور گھروں پر فروخت کے وقت 5 لاکھ روپے کیپیٹل ویلیو ٹیکس عائد ہوگا، اسلام اباد میں 4 ہزار گز سے زائد فارم ہاؤس اور گھروں کی فروخت پر 10 لاکھ روپے کیپیٹل ویلیو ٹیکس عائد ہوگا۔
بجٹ میں سیون ایف کے تحت بلڈر اور ڈیویلپر کی انکم ڈیمڈ کرنے کے بعد 15 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔
’ٹیکس فراڈ روکنے کیلئے ایف بی آر کے ان لینڈ ریونیو میں ٹیکس فراڈ انویسٹی گیشن ونگ کا قیام عمل میں لایا جائے گا‘
انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے دوران ٹیکس فراڈ کو روکنے کے لیے ایف بی آر کے ان لینڈ ریونیو میں ٹیکس فراڈ انویسٹی گیشن ونگ کا قیام عمل میں لایا جائے گا، وزیر خزانہ نے اس حوالے سے مالیاتی بل 2024 میں ترمیم پیش کی جس کی ایوان نے منظوری دی، ترمیم کے تحت یہ ونگ ٹیکس فراڈ اور ٹیکس چوری کے خاتمے کی تحقیقات کا ذمہ دار ہو گا۔
ونگ فراڈ انٹیلی جنس اینڈ اینالیسز یونٹ، فراڈ انویسٹی گیشن یونٹ، لیگل یونٹ، اکائونٹنٹ یونٹ، ڈیجیٹل فرانزک اینڈ سین آف کرائم یونٹ، انتظامی یونٹ یا ایف بی آر کے بورڈ کی منظوری سے کسی بھی یونٹ پر مشتمل ہو گا۔ ٹیکس فراڈ انویسٹی گیشن یونٹ کی قیادت چیف انویسٹیگیٹر کرے گا جس کے لیے ایف بی آر کا بورڈ افسران کا تقرر کرے گا۔
حکومت کی طرف سے بل میں ترامیم شامل، اپوزیشن کی طرف سے پیش کردہ تمام ترامیم کثرت رائے سے مسترد
حکومت کی طرف سے فنانس بل میں ترامیم شامل کر لی گئیں جب کہ اپوزیشن کی طرف سے پیش کردہ تمام ترامیم کثرت رائے سے مسترد کر دی گئیں۔
وزیر خزانہ نے وفاقی حکومت کی مالی تجاویز کو روبہ عمل لانے اور بعض قوانین میں ترمیم کرنے کا مالی بل 2024ء فی الفور زیر غور لانے کی تحریک پیش کی جس کی جمعیت علماء اسلام (ف) کی رکن عالیہ کامران نے مخالفت کی۔
رہنما جے یو آئی (ف) نے اس کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پیک دودھ اور ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا، دل کے مرض کے آلات پر ٹیکسوں سے علاج مہنگا ہو گا، نان فائلرز کے نام پر سفری پابندیاں لگائی جا رہی ہیں اس سے پوری قوم متاثر ہو گی، تحقیق اور تعلیم پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے۔
سنی اتحاد کونسل کے رکن علی محمد خان نے کہا کہ اس بجٹ سے عام آدمی کی زندگیوں میں کوئی بہتری نہیں آئے گی، اس لئے اس بجٹ کی ہم مخالفت کرتے ہیں، 25 سے 30 ہزار روپے ماہانہ میں گھر کا بجٹ بنانا ممکن نہیں، ملک کی معیشت بہتر بنانے کے لئے سودی نظام سے چھٹکارا ضروری ہے۔
علی گوہر خان نے کہا کہ مالی بل میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینا مقصد ہوتا ہے، اس دور میں سب سے کم شرح نمو اور ترسیلات زر رہی ہیں، پی آئی اے اور ڈسکوز کے اثاثہ جات کی مالیت 1000 ارب روپے ہے، بجٹ میں اس سے 30 ارب روپے کا حصول ظاہر کیاگیا ہے، ایف بی آر کے اسٹرکچر میں تبدیلی لائے بغیر ٹیکس نیٹ نہیں بڑھ سکتا۔
زرتاج گل نے کہا کہ بجٹ میں عوام کے لئے کچھ نہیں، آبی وسائل، موسمیاتی تبدیلی کے لئے بجٹ میں کچھ نہیں، ہم بجٹ کو مسترد کرتے ہیں، آئی پی پیز کو دیئے جانے والے تین کھرب روپے کا کوئی حساب یہاں نہیں دیا گیا۔
قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا کہ اس بجٹ کا ہدف پاکستان کی عوام ہے، گندم کی درآمد نے کاشتکاروں کی کمر توڑ دی ہے، کاشتکاروں کی گندم ان سے نہیں خریدی گئی، اس اقدام کے خلاف نیب سے تحقیقات کرائی جائیں، بجٹ سے افراط زر میں اضافہ ہو گا، قیمتوں میں عارضی کمی کے بعد پھر اضافہ ہورہا ہے، بجلی کے نرخ سو روپے فی یونٹ تک جائیں گے، گیس کی قیمتیں بڑھیں گی۔
عمیر نیازی نے کہا کہ ہمیں ایسے سیکٹرز دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ٹیکس نیٹ بڑھے، سولر کی کسانوں کو اسکیمیں دی جائیں، زرعی شعبہ میں اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے، خوردنی تیل کی ملکی سطح پر پیداوار کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
نوجوانوں کو قرض کی فراہمی پر کام کیاجائے۔اسلحہ کی فروخت پر توجہ دی جائے۔ اسد قیصر نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ میں کے پی کو 19 فیصد حصہ دیا جائے۔اس بارے میں مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلایا جائے۔کے پی کے نیٹ ہائیڈل منافع کے بقایا جات دیئے جائیں۔ سپیکر نے مالی بل 2024ء کو زیر غور لانے کی تحریک ایوان میں پیش کی جس کی ایوان نے کثرت رائے سے منظوری دیدی۔ اس کے بعد ایوان میں بل کی شق وار منظوری کا عمل شروع ہوا۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے یک بعد دیگرے مالی بل کی شقیں منظوری کیلئے ایوان میں پیش کیں۔ بل کی مختلف شقوں میں سینیٹ کی سفارشات اور ارکان قومی اسمبلی کی تجاویز کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے فنانس بل میں مختلف ترامیم پیش کی گئیں جن کی ایوان نے منظوری دیدی جبکہ اپوزیشن کی طرف سے عمر ایوب خان، جنید اکبر خان، مبین عارف، علی محمد خان، اسلم گھمن، زرتاج گل، جے یو آئی کے رکن نور عالم خان سمیت دیگر اپوزیشن ارکان نے ترامیم پیش کیں جن کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی اور انہیں کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے ارکان شاہدہ رحمانی، شگفتہ جمانی اور اعجاز جاکھرانی کی طرف سے جمع کرائی گئی ترامیم واپس لے لی گئیں تاہم عبدالقادر پٹیل کی ارکان اسمبلی و سینیٹ کی تنخواہوں اور الائونسز کے حوالے سے ترمیم کی وزیر خزانہ نے مخالفت نہیں کی اس طرح یہ ترمیم بل میں شامل کر لی گئی۔ سیلز ٹیکس سے متعلق اپوزیشن کی ترمیم پر وزیر خزانہ نے ایوان کو بتایا کہ ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔ 756 ارب روپے سیلز ٹیکس کے فر اڈ کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اس دوران تمام اپوزیشن ارکان احتجاجاً ایوان سے واک آئوٹ کر گئے۔ مالی بل 2024ء کی تمام شقوں کی ایوان سے منظوری کے بعد وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے تحریک پیش کی کہ آئندہ مالی سال کی بجٹ تجاویز کو روبہ عمل لانے کیلئے مالی بل 2024ء منظور کیا جائے۔ قومی اسمبلی نے بل کی منظوری دیدی۔
چاروں صوبوں نے اس وقت کے صدر، وزیر اعظم کے ساتھ ملکر این ایف سی کی منظوری دی، وزیر اعظم
قبل ازیں قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ 2010 میں آخری این ایف سی ہوا تھا اور چاروں صوبوں نے مل کر اس وقت کے وزیر اعظم اور صدر کے ساتھ مل کر این ایف سی کی منظوری دی، اس وقت دہشتگردی اپنے عروج پر تھی اور اس سے سب سے زیادہ متاثر پمارے صوبے تھے لیکن خیبرپختونخوا کے فورسز اس وقت فرنٹ لائن پر تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں خود اس میں شریک تھا اور یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں سب کام ہوا یہ آج تک چلا آرہا ہے اور ہمیں اس پر آج تک اعتراض نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 2010 سے آج تک 590 ارب روپے خیبرپختونخوا کو ملے دہشتگردی کے حوالے سے، اس صوبے میں بھی ہمارے بھائی اور بہنوں نے شہادتیں دی ہیں مگر اس ضمرے میں کسی کو پیسے نہیں ملے سوائے خیبرپختونخوا کے، میں ادب سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ 590 ارب روپے دیے گئے لیکن آج تک وہاں سی ٹی ڈی قائم نہ ہوسکا جس کی وجہ سے یہ رقم مختص کی گئی تھی ایوارڈ میں، اس کو سوچیں کہ 590 ارب جاچکے مگر سی ٹی ڈی آج بھی نامکمل ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ پنجاب میں چیف سیکریٹری کے حوالے سے جو اپوزیشن نے کہا تو ہم نے ان کو تین ناموں کا پینل دیا ہے خیبرپختونخوا میں لیکن ابھی تک انہوں نے فیصلہ نہیں دیا، ان کو نہیں پسند تو ہم اور کوئی پینل دے دیتے ہیں، خیبرپختونخوا کی عوام پاکستان کے بہادر عوام ہیں، یہ ایک خوبصورت صوبہ ہے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا کہ ملک میں قانون نہیں ہے، انٹیلیجنس ایجنسیاں ججز کو زدکوب کررہی ہیں۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ بجٹ در حقیقت اقتصادی دہشت گردی ہے، اس بجٹ سے عوام کو ٹارگٹ کیا گیا ہے، حکومتی بینچز میں بیٹھنے والے لوگ عوام کے معاشی قاتل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ درآمد کی گئی گندم حکومت کے فرنٹ مین نے رکھی ہوئی ہے، یہ سرکس کابینہ ہے، گندم اسکینڈل پر نیب کی تحقیقات ہونی چاہیے، آئل، آٹا، اشیا خورد و نوش کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، اس بجٹ کے ساتھ کوئی اقتصادی ترقی نہیں ہوگی۔
قبل ازیں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا کو اس بات پر ٹارگٹ کیا جارہا ہے کہ وہاں کے لوگوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ فنانس بل میں کوئی کفایت شعاری پلان نہیں رکھا گیا، اس حکومت میں سب سے زیادہ لوگ بیروزگاری رہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی آئی اے اور ڈسکوز کی نجکاری کی بات کی جارہی ہے، انکم ٹیکس آرڈیننس میں بھی یہ لوگ ترامیم کرنا چاہ رہے ہیں۔
بعد ازاں رہنما پی ٹی آئی زرتاج گل نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اعتراف کیا کہ بجٹ آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر بنایا ہے، اس بجٹ میں عام آدمی کے لیے کچھ نہیں رکھا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ میں اس بجٹ کو مسترد کرتی ہوں۔
اس کے بعد اسپیکر ایاز صادق نے قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معیینہ مدت تک ملتوی کردیا۔