پاکستان

اقتصادی رابطہ کمیٹی نے پنشن سسسٹم میں اہم اصلاحات کی منظوری دے دی

کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے پنشن فنڈ کے قیام کے لیے فنانس ڈویژن کو اصولی منظوری بھی دے دی۔

کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے وفاقی حکومت کے پنشن سسٹم میں بڑی تبدیلیوں کی منظوری دے دی، وفاقی کابینہ کی باضابطہ توثیق کے بعد یکم جولائی کو نوٹیفکیشن کیا جائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی زیر صدارت ای سی سی نے مالی سال 2023-2024 کے اختتام سے صرف دو دن قبل تکنیکی اور ضمنی گرانٹس میں تقریباً 500 ارب روپے کی منظوری بھی دی۔

کمیٹی نے چھوٹے اور درمیانے کاروبار (ایس ایم ای) کے لیے رسک کوریج اسکیم کو دوبارہ شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا اور بجٹ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے یونیورسل سروس فنڈ (یو ایس ایف) کو 11.13 ارب روپے واپس کرنے کے لیے وزارت آئی ٹی کی سمری کی منظوری دی۔

ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ای سی سی نے پنشن فنڈ کے قیام کے لیے فنانس ڈویژن کو اصولی منظوری بھی دی، کمیٹی نے نئے داخل ہونے والوں کے لیے یکم جولائی 2024 سے اور مسلح افواج کے لیے یکم جولائی 2025 سے ڈیفائنڈ کنٹریبیوٹری اسکیم کی تجویز کی بھی منظوری دی ہے۔

سمری سے پتہ چلتا ہے کہ پنشن اسکیم میں بہت سی تبدیلیوں کا اعلان اس وقت کے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے پچھلے سال کے بجٹ میں کیا تھا، لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوا۔

وزارت خزانہ کی طرف سے اس تجویز کے عدم نفاذ کے بارے میں وضاحت پیش کیے بغیر بھیجی گئی سمری میں کہا گیا ہے کہ پنشن اسکیم میں ترامیم کا اعلان مالی سال 2023-2024 کے بجٹ تقریر میں بھی کیا گیا تھا۔

اس میں بتایا گیا ہے کہ یہ تبدیلیاں 2020 کے پے اینڈ پنشن کمیشن کی سفارشات کے مطابق ہیں جن میں موجودہ پنشنرز اور ملازمین کے لیے پنشن اسکیم میں ترامیم کی گئی ہیں تاکہ حکومت کے پنشن فلسفے پر سمجھوتہ کیے بغیر پنشن کے اخراجات میں مستقبل میں اضافے کو کم کیا جا سکے۔

وزارت خزانہ نے دعویٰ کیا کہ سول سروس ریگولیشنز کے تحت وفاقی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی صوابدید پر وقتاً فوقتاً تنخواہ، الاؤنس، چھٹی اور پنشن سے متعلق ان ضوابط میں ترمیم کرنے کا اختیار اور تنازع کی صورت میں اس کی تشریح کرنے کا حق رکھتی ہے۔

ڈرافٹ رولز بتاتے ہیں کہ مجموعی پنشن کا حساب لگانے کے لیے، وفاقی حکومت کے ملازمین ریٹائرمنٹ سے قبل سروس کے آخری 24 مہینوں کے دوران حاصل کیے گئے اوسط پنشن کے قابل اجرتوں کے 70 فیصد کی بنیاد پر خام پنشن کے حقدار ہوں گے، رضاکارانہ ریٹائرمنٹ پر جرمانے ہوں گے۔

ایک وفاقی حکومت کا ملازم 25 سال کی سروس کرنے کے بعد ریٹائرمنٹ کا انتخاب کر سکتا ہے، تاہم، وہ خام پنشن میں سالانہ 3 فیصد کی فلیٹ کمی کی شرح کا ذمہ دار ہوگا۔

خام پنشن میں اس طرح کی فلیٹ کمی 20 فیصد پر محدود ہوگی، تاہم، یہ جرمانہ مسلح اور سول مسلح افواج کے لیے رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کے معاملات میں صرف اس صورت میں لاگو ہوگا جب ان کی جانب سے مقررہ رینک سروس سے قبل ریٹائرمنٹ طلب کی جائے یا دی جائے۔

مستقبل میں پنشن میں اضافے کے طریقہ کار کے لیے، ریٹائرمنٹ کے وقت حساب کردہ نیٹ پنشن کو بیس لائن پنشن کہا جائے گا، اور پنشن میں کوئی بھی اضافہ بیس لائن پنشن پر دیا جائے گا، ہر اضافے کو الگ رقم کے طور پر برقرار رکھا جائے گا جب تک کہ وفاقی حکومت کسی اضافی پنشنری فوائد پر نظرثانی کرنے اور اسے اختیار کرنے کا فیصلہ نہیں کرتی ہے۔

عام خاندانی پنشن، شریک حیات کی موت یا نااہلی کے بعد، زیادہ سے زیادہ 10 سال تک باقی اہل خاندان کے لیے قابل قبول ہوگی، تاہم، پنشنر کے خصوصی بچوں یا معذور بچوں کی صورت میں، عام خاندان کی پنشن ایسے بچوں کی پوری زندگی کے لیے ہوگی، حقدار بچوں کی صورت میں، فیملی پنشن 10 سال تک یا 21 سال کی عمر تک، جو بھی بعد میں ہو قابل قبول رہے گی۔

مزید برآں، خصوصی فیملی پنشن، شریک حیات یا پہلے وصول کنندہ کی موت یا نااہلی کے بعد 25 سال تک اہل خاندان کے باقی افراد کے لیے قابل قبول ہوگی، معذور یا خصوصی بچوں کی صورت میں یہ پنشن تاحیات قابل قبول رہے گی۔

اہل وصول کنندگان کے لیے ایسی پنشن کی شرح کو بڑھا کر آخری دی گئی پنشن کے 50 فیصد تک بڑھا دیا گیا ہے جو مسلح افواج/سول مسلح افواج کے تمام رینکوں کے لیے کم از کم یا زیادہ سے زیادہ حد کے بغیر پہلے وصول کنندہ کے لیے قابل قبول ہے اور پنشن ریگولیشنز والیوم-1 ( مسلح افواج) 2010 میں بیان کردہ حکم کے مطابق تمام اہل وارثوں کو منتقل کیا جا سکتا ہے۔

ایسی صورت میں جہاں وفاقی حکومت کے پنشنر کو، 50 سال کی عمر کے بعد، ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ پبلک سروس میں رکھا جاتا ہے، چاہے وہ ریگولیٹر یا کنٹریکٹ کی بنیاد پر یا کسی بھی قسم کی ملازمت پر، پنشنر کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ پنشن برقرار رکھے یا اس ملازمت کی مدت کے دوران تنخواہ حاصل کریں۔