سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کو بلے کا نشان واپس کرنے کیلئے درخواست دائر
سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کو بلے کے نشان کی واپس کرنے کے لیے درخواست دائر ہوگئی۔
ڈان نیوز کے مطابق درخواست شہری انجینئر قاضی محمد سلیم نے 184(3) کے تحت دائر کی،درخواست میں تحریک انصاف کو بلے کا نشان اور مخصوص نشستیں دینے کی استدعا کی گئی ہے، درخواست میں چیف جسٹس اور الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواستگزار نے مؤقف اپنایا کہ پی ٹی آئی نے عام انتخابات میں دیگر تمام جماعتوں سے زیادہ ووٹ حاصل کیے، پی ٹی آئی نے عام انتخابات میں 1 کروڑ 84 لاکھ 60 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے ہیں۔
درخواست گزار نے استدعا کی ہے کہ پی ٹی آئی نے عام انتخابات میں انتخابی نشان کے بغیر حصہ لیا، اب انتخابی نشان واپس کیا جائے، انتخابی نشان کی واپسی کے بعد آزاد امیدواروں کو پی ٹی آئی جوائن کرنے کی اجازت دی جائے۔
درخواست کے مطابق پی ٹی آئی کو متناسب نمائندگی کے اصول کے تحت مخصوص نشستیں فراہم کی جائیں۔
یاد رہے کہ 13 جنوری کو سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو ’بلے‘ کا انتخابی نشان واپس کرنے کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا تھا، جس کے بعد پی ٹی آئی ’بلے‘ کے انتخابی نشان سے محروم ہوگئی تھی۔
تینوں ججز کے متفقہ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ 14 تحریک انصاف کے اراکین نے انتخابات کے بارے میں شکایت کی، اراکین نے پی ٹی آئی سے تعلق ثابت کیا، الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف کئی شکایات ملیں، الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کو پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کا فیصلہ سنایا اور الیکشن کمیشن کے فیصلے میں پی ٹی آئی کوانتخابی نشان کے لیے نااہل قرار دیا گیا۔
22 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دے کر انتخابی نشان واپس لے لیا تھا۔
26 دسمبر کو پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی سے ’بلے‘ کا نشان واپس لینے کا فیصلہ معطل کردیا تھا۔
بعدازاں 30 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کر دی تھی۔
3 جنوری کو ’بلے‘ کے انتخابی نشان کی بحالی کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر پشاور ہائی کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اپنا حکم امتناع واپس لے لیا تھا، جس کے بعد پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان ’بلے‘ سے اور بیرسٹر گوہر خان پارٹی چیئرمین شپ سے محروم ہوگئے تھے۔
تاہم 10 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو ’بلے‘ کے نشان پر الیکشن لڑنے کی اجازت دے دے دی تھی، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔
واضح رہے کے سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل نے درخواست دائر کی ہوئی ہے۔
4 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردیں تھی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کےسیکشن 104 کےتحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کیا ہے۔
چار ایک کی اکثریت سے جاری 22 صفحات پر مشتمل فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتی، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ جمع نہیں کرائی۔
بعد ازاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔