پاکستان

سپریم کورٹ کا مقصد تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنا ہر گز نہیں تھا، جسٹس منیب اختر

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فُل کورٹ نے کیس کی سماعت کی، وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل دیے۔
|

سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا مقصد تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنا ہر گز نہیں تھا۔

ڈان نیوز کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فُل کورٹ نے کیس کی سماعت کی۔

سماعت کو براہ راست سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر نشر کیا گیا۔

سماعت کے آغاز پر الیکشن کمیشن کے وکیل سکندربشیر روسٹرم پر آگئے ، انہوں نے دلائل کا آغاز کردیا۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کی لسٹ طلب کی تھی وہ نہیں ملی، وکیل نے جواب دیا کہ سارا ریکارڈ جمع کرا دیا ہے، کیس سے متعلق حتمی پیپر بک جمع کرا دی ہے، الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ 81 آزادامیدواروں کے کاغذات نامزدگی مجھے مہیا کریں، میں تحریک انصاف کے فارم 66 بھی عدالت کو مہیا کردوں گا۔

وکیل نے مزید بتایا کہ حامد رضا نے کاغذات نامزدگی میں کہا میرا تعلق سنی اتحاد اور اتحاد تحریک انصاف سے ہے، حامد رضا کے دستاویزات میں کہا تحریک انصاف نظریاتی کے ساتھ منسلک ہوں، تحریک انصاف نظریاتی مختلف سیاسی جماعت ہے جس کا پی ٹی آئی سے تعلق نہیں، حامدرضا کو ان ہی کی درخواست پر ٹاور کا نشان انتخابات لڑنے کے لیے دیا گیا، حامدرضا نے بطور آزادامیدوار انتخابات میں حصہ لیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اردو والے دستاویزات میں تو حامد رضا نے نہیں لکھا کہ میں آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں اترنا چاہ رہا، وکیل نے جواب دیا کہ ایسا کیسے ہوسکتا کہ حامدرضا خود کو آزاد امیدوار نہ کہیں؟ تحریک انصاف نظریاتی کا ٹکٹ حامد رضا نے جمع نہیں کروایا، حامدرضا نے منسلک ہونے کا سرٹیفیکٹ تحریک انصاف کا دیا ہے۔

انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حامدرضا نے حلف لے کر کہا میں تو تحریک انصاف نظریاتی میں ہوں، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مطابق الیکشن کمیشن نے حامدرضا کو ٹاور کا نشان دیا، ریٹرننگ افسران بھی تو الیکشن کمیشن کے ہی آفیشلز ہیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ حامد رضا کی سب سے آخری درخواست پر الیکشن کمیشن نے عملدرآمد کیا۔

جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ حامد رضا نے کس سیاسی جماعت سے خود کو منسلک کیا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ جو ریکارڈ ہے ہمیں دکھائیں، ورنہ تو ہوا میں بات ہوگی، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا کاغذات نامزدگی واپس لینے کے بعد کسی امیدوار کو اختیار ہے کہ اپنی پارٹی تبدیل کرلے؟ کیا کوئی امیدوار کہہ سکتاہےکہ فلاں پارٹی کو چھوڑ کر دوسری پارٹی کا ٹکٹ لینا چاہتا ہوں؟

جسٹس منصورعلی شاہ نے بتایا کہ ہمارے سامنے کاغذات نامزدگی کا کیس ہے، ریٹرننگ افسران کے پاس امیدوار کے کاغذات نامزدگی کے ساتھ منسلک پارٹی سرٹیفیکٹ ہوتا ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن میں جو آخری درخواست ہو اس کے ساتھ جانا ہوتا ہے، پہلے والا فارم الیکشن کمیشن نے کیوں نہیں دیکھا۔

کیا آپ کسی کو انتخابات سے باہر کرسکتے ہیں؟ چیف جسٹس

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ایک شخص اگر شادی کرنا چاہے تو لڑکی کی بھی رضامندی ضروری ہے نا، جس پارٹی سے انتخابات لڑنے ہیں اسی کی پارٹی سے منسلک ہونے کا سرٹیفیکٹ لگانا ضروری ہےنا؟ سرٹیفیکٹ تحریک انصاف نظریاتی اور ڈیکلریشن پی ٹی آئی کا کریں تو قانون کیا کہتا؟ مختلف شہروں کے ریٹرننگ افسران ہوتے، ہر ریٹرننگ افسر اپنے طریقے سے کام کرےگا نا؟ نشان چھوڑیں، ہمیں امیدوار کی سیاسی وابستگی کے بارے میں بتائیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ امیدوار کی ڈیکلریشن اور پارٹی کے ساتھ وابستگی ظاہر ہونا ضروری ہے، اگر ڈیکلریشن، سیاسی وابستگی میچ نہ ہو تو آزاد امیدوار ہوتا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا آپ کسی کو انتخابات سے باہر کرسکتے ہیں؟ وکیل نے بتایا کہ ریٹرننگ افسران کے لیے صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے آسان راستہ تھا کہ ایسے امیدواروں کو آزاد ظاہر کیا جائے۔

ا س پر جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا ایسا ہوا کہ امیدوار کہے میں ایک پارٹی کا ہوں، اسی کا سرٹیفیکٹ بھی دے لیکن الیکشن کمیشن نے اسے آزادامیدوار ظاہر کردیا ہو؟ وکیل نے کہا کہ ایسے امیدوار تھے لیکن انہوں نے کاغذات نامزدگی واپس لے لی۔

جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ کیا ان 81 امیدواروں میں کوئی ایک ہے جس نے جماعت سے وابستگی اور سرٹیفکٹ بھی دیا؟ کیا ایسے ہیں جنہوں نے وہ کاغذات واپس نہیں لیے مگر پھر بھی اسے آزاد ڈیکلئیر کردیا ہو؟ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ 81 لوگ ہیں تو ان کا مختلف مختلف حساب ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آپ اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں یا نہیں؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کا جواب جو چارٹ آپ نے جمع کرایا اس میں موجود ہے، جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ چارٹ کے مطابق 81 میں سے 35 نے وابستگی کو خالی رکھا، کیا یہ ریکارڈ نہیں دکھاتا کہ پی ٹی آئی امیدواروں کا رویہ غیر سنجیدہ ہے؟

جسٹس میاں محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سیریل 12 اور 20 والے امیدواروں کے وابستگی اور ڈیکلیریشن دونوں پی ٹی آئی کے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کپ جب یہ دونوں چیزیں موجود تھیں تو امیدوار کو پی ٹی آئی کا کیوں نہ سمجھا گیا؟ الیکشن کمیشن نے اس کے بعد انتخابی نشان سے کنفیوز کیوں کیا؟ جن امیدواروں نے پارٹی کا سرٹیفکٹ بھی دیا انہیں اس جماعت کا تصور کیوں نہ کیا گیا؟ آپ اس معاملے میں انتخابی نشان کہاں سے لے آئے؟

جس امیدوار نے وابستگی برقرار رکھی اسے آزاد کیسے ڈیکلیئر کیا؟ عدالت

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ سیریل 22 والے امیدوار کو بھی دیکھیں، جس امیدوار نے وابستگی برقرار رکھی اسے آزاد کیسے ڈیکلئیر کیا؟ جسٹس قاضئ فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیش کا جواب مجھے کلک نہیں کر رہا۔

جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ پوچھا تو الیکشن کمیشن سے جائےگا نا کہ انہوں نے کیا کیا ؟ آزادامیدوار تو الیکشن کمیشن نے بنایا تھا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک امیدوار کی بات نہیں، تحریک انصاف کی بات ہورہی جو قومی جماعت ہے، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو کہا کہ آپ کو نشان نہیں ملےگا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا لیکن ایسا نہیں کہا کہ تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کردیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنا مقصد ہر گز نہیں تھا، بلے کے نشان کے فیصلے کے ساتھ سپریم کورٹ کھڑی ہوتی ہے لیکن تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنا مقصد نہیں تھا، 22 دسمبر 2023 کو صدر مملکت کون تھا؟

وکیل نے بتایا کہ دسمبر 2023 میں صدر مملکت عارف علوی تھے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا نگراں حکومت تھی یا سیاسی جماعت کی حکومت تھی؟ کیا کسی نگراں حکومت کو نیوٹرل ہونا چاہیے؟ اتنی نیوٹرل جتنا الیکشن کمیشن ہے؟ کیا نگراں حکومت اتنی ہی آزاد ہونی چاہیے جتنا الیکشن کمیشن ہے؟

انتخابات میں عوام کی منشا دیکھی جاتی ہے، جسٹس اطہر من اللہ

اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اگر عارف علوی کا ماضی کا ریکارڈ دیکھیں تو انتخابات عارف علوی نہ کرتے، دنیا بھر کی باتیں کررہے، صدر مملکت عارف علوی پی ٹی آئی کے ہو کر کیوں انتخابات کی تاریخ نہیں دے رہےتھے؟ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ انتخابات میں عوام کی منشا دیکھی جاتی ہے، اگر کوئی انتخابات پر سوال اٹھائے تو الیکشن کمیشن کے پاس معاملہ جاتاہے۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ سیاسی نشان بعد کی بات ہے، امیدوار انتخابات میں حصہ لیتا ہے، پارٹی نہیں، امیدوار صرف پارٹی کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کرتا، امیدوار کا حق ہے کہ اسے انتخابات کے لیے نشان ملے، وابستگی کا معاہدہ امیدوار اور جماعت کے درمیان ہوتا ہے ، آپ کوئی ایک قانون کی شق دکھا دیں الیکشن کمیشن نے انہیں کیسے آزاد ڈیکلیئر کر دیا؟

الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کر کے اہم پارٹی کو الیکشن سے نکال دیا، عدالت

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اس کا جواب یہی ہے نا کہ آپ نے بس انتخابی نشان نہ ہونے پر اس جماعت کو الیکشن سے باہر رکھا؟ بس ہمیں یہ بتا دیں الیکشن کمیشن نے کب کہاں بیٹھ کر یہ سوچا؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس کا مطلب ہوا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کر کے اہم پارٹی کو الیکشن سے نکال دیا، اب انتخابی نشان کا فیصلہ دینے والا بینچ آپ کو خود بتا رہا ہے آپ کی تشریح غلط تھی۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ صرف آبزرویشن ہیں ابھی اس متعلق کوئی فیصلہ نہیں آیا، انتخابی نشان والے فیصلے کے خلاف نظر ثانی زیر التوا ہے، چند امیدواروں نے کاغذات نامزدگی واپس لیے اور آزادامیدوار خود کو ظاہر کیا، آزادامیدوار سنی اتحاد میں شامل ہوئے، کیس میرا نہیں، سنی اتحاد کا ہے، دیکھنا ہوگا کہ اپیل میں سنی اتحاد نے کیا دلائل و حقائق سامنے رکھے، آزادامیدوار ہونے کے لیے پارٹی جوائن کرنا ضروری ہے۔

اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آزادامیدوار نے خود کو امیدوار ظاہر نہیں کیا، الیکشن کمیشن نے آزاد ڈیکلیئر کیا، الیکشن کمیشن نے امیدوار کو آزاد بنایا، الیکشن لڑا، پھر جماعت کے ساتھ منسلک ہونا چاہ رہے تو الیکشن کمیشن کہہ رہا کیسے شامل ہوسکتے؟ الیکشن کمیشن نے امیدوار کو آزادامیدوار کہا اور اب جب امیدوار اپنی پارٹی میں شامل ہونا چاہ رہا تو الیکشن کمیشن مذاق اڑا رہا۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے سننا پسند ہے، میرا اپنا دماغ بھی ہے لیکن وکیل کو سننا چاہتاہوں، وکیل الیکشن کمیشن نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف نظریاتی کا ٹکٹ تو کسی کو ملا ہی نہیں، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کچھ حقائق واضح ہوتے جس کے لیے آپ کا یا میرا بولنا نہیں ضروری ہے، الیکشن کمیشن کے عدالت کو مہیا کیے گئے دستاویزات میں تنازع ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فارم 33 الیکشن کمیشن بناتا ہے جس میں امیدوار اپنا سرٹیفیکٹ دیتا ہے۔

بعد ازاں ڈی جی لا نے روسٹرم پر سنی اتحاد کا مخصوص نشستوں سے متعلق منشور پڑھا۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن ہر سیاسی جماعت کا منشور پڑھ کر انہیں مخصوص نشستیں دیتا ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ مجھے ضروری لگا کہ سنی اتحاد کا منشور عدالت کے سامنے لایا جائے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا میں تمام پارٹیوں کا دیکھوں یا ایک پارٹی کا منشور دیکھوں؟ دیگر پارٹیوں کے منشور کو نظر انداز کیوں کروں؟ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ آپ کسی اور پارٹی کا منشور نہ دیکھیں، آپ میری بات سنیں۔

اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ نے سنی اتحاد کونسل کے چئیرمین کو خود آزاد ڈیکلیئر کیا، آپ کے آزاد ڈیکلیئر کرنے پر وہ کامیاب ہو کر واپس اپنی ہی جماعت میں شامل ہوا، اب آپ کہہ رہے ہیں سنی اتحاد کونسل کا چیئرمین خود کیسے اپنی جماعت میں شامل ہوا؟ تو یہ صورتحال آپ کی اپنی پیدا کردہ ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے کہا سنی اتحاد کونسل غیر مسلم ممبر کو تسلیم نہیں کرتا، ایسی ہی شق جے یو آئی (ف) کے منشور میں بھی ہے، مگر جے یو آئی کو تو اس کے باوجود مخصوص نشستیں دی گئیں۔

بعد ازاں وکیل سکندربشیر کی جانب سے مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن ایکٹ کے مختلف سیکشنز پڑھے گئے۔

وکیل نے بتایا کہ اگر مخصوص نشست لینی ہے تو جنرل سیٹ جیتنی پڑے گی جو سنی اتحاد جیتنے میں ناکام رہی، آزادامیدواروں کا سنی اتحاد سے کوئی تعلق نہیں۔

اسی دوران وکیل سکندر بشیر پانی پینے روکے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ کے سامنے دلائل دینے والے وکلا کے ساتھ میری ہمدردیاں ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سکندربشیر سے مکالمہ کیا کہ فل کورٹ میں مختلف خیالات سامنے آتے ہیں۔

بعد ازاں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ دیگر فریقین کے وکلا کو بھی ایسے ہی ٹریٹ کیا گیا جیسے آپ کو کیا گیا ہے۔

اسی دوران چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن سے دریافت کیا کہ آپ کو کتنا وقت لگےگا؟ ایک دو منٹ؟ چوکیل نے جواب دیا کہ مجھے کافی وقت دلائل دینے میں لگیں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تو کوشش کررہے کہ جلد ختم کریں، پیر کا دن رکھ لیں؟ ساڑھے گیارہ بجے؟ تحریک انصاف کی لسٹ آج مہیا کردیں، وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ میں تحریک انصاف کی لسٹ دےدوں گا۔

اسی کے ساتھ سپریم کورٹ نے دیگر وکلا کو تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ مہیا کرنے کی ہدایت کردی۔

جسٹس یحیی آفرینی کا کہنا تھا کہ دیگر امیدواروں کے سرٹیفیکٹ اور ڈیکلیریشن بھی مہیا کردیں۔

بعد ازاں عدالت نے سماعت یکم جولائی بروز پیر کی صبح 11 بج کر 30 منٹ تک ملتوی کردی۔

گزشتہ سماعتوں کا احوال

یاد رہے کہ 25 جون کو سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب آمر آئے تو سب ساتھ مل جاتے ہیں، وزیر اور اٹارنی جنرل بن جاتے ہیں اور جب جمہوریت آئے تو چھریاں نکال کر آجاتے ہیں۔

واضح رہے کہ 24 جون کو سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ عمران خان بطور وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہو رہے تھے۔

22 جون کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے درخواست پر سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کروادیا تھا جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ ایس آئی سی کے آئین کے مطابق غیر مسلم اس جماعت کا ممبر نہیں بن سکتا، سنی اتحاد کونسل آئین کی غیر مسلم کی شمولیت کے خلاف شرط غیر آئینی ہے، اس لیے وہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص سیٹوں کی اہل نہیں ہے۔

4 جون کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیتی سارے مسئلے حل ہو جاتے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا سارے تنازع کی وجہ بنا۔

3 جون کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سیاسی باتیں نہ کی جائیں۔

31 مئی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دے دیا تھا۔

4 مئی کو سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کے مقدمے کی سماعت کی مقرر کردہ تاریخ تبدیل کردی تھی۔

3 مئی کو ‏پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔

کیس کا پس منظر

واضح رہے کہ 6 مئی سپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کا الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر تے ہوئے معاملہ لارجر بینچ کو ارسال کردیا تھا۔

3 مئی کو ‏پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔

یاد رہے کہ 4 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردیں تھی۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے 28 فروری کو درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کےسیکشن 104 کےتحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کیا ہے۔

چار ایک کی اکثریت سے جاری 22 صفحات پر مشتمل فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتی، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ جمع نہیں کرائی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، یہ مخصوص متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔

الیکشن کمیشن نے تمام خالی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جے یو آئی ف) کو دینے کی درخواست منظور کی تھی۔

چیف الیکشن کمشنر، ممبر سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے اکثریتی فیصلے کی حمایت کی جب کہ ممبر پنجاب بابر بھروانہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

بعد ازاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

مخصوص نشستوں کا کیس: آمر آئے تو ساتھ ہوجاتے، جمہوریت آئے تو چھریاں نکال لیتے ہیں، چیف جسٹس

مخصوص نشستوں کا کیس: عمران خان بطور وزیراعظم الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہو رہے تھے، چیف جسٹس

سنی اتحاد کونسل میں غیرمسلم ممبر نہیں بن سکتا، مخصوص نشستوں کی اہل نہیں، الیکشن کمیشن کا جواب جمع