’ہجوم کو خود جج اور جلاد بننے کے لیے محض ایک الزام کافی ہے‘
ایک سوشل میڈیا صارف نے وائرل ہونے والی ایک ویڈیو کے نیچے کمنٹ میں لکھا، ’شکریہ محمد علی جناح‘۔ اس ویڈیو میں ہندو انتہا پسندوں کے ایک ہجوم کو بھارت میں ایک مسلمان کی دکان پر توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کرتے ہوئے دکھایا گیا کیونکہ متعلقہ دکان کے مالک نے عید پر اپنے جانور کی قربانی کی تصویر واٹس ایپ پر شیئر کی تھی۔
اس تبصرے یا کمنٹ کا واضح مطلب یہ تھا کہ پاکستان بنا کر قائداعظم نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک محفوظ پناہ گاہ فراہم کی ہے ورنہ ان سب کا بھی وہی حال ہوتا جو بھارت میں مقیم مسلمان دکاندار کا ہوا جس نے تو محض اپنے مذہبی فریضے کی ادائیگی کی تھی۔
یقیناً اس سوشل میڈیا صارف نے بھی وہی کیا جو ہم میں سے بہت سے لوگ کرتے ہیں یعنی وہم پالا اور چند حقائق پر انحصار کیا۔ قائداعظم کی یہ تقریر پڑھ کر کہ جہاں انہوں نے کہا تھا، ’آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے‘۔ ہم نے ان کے روادار، مساوی مواقع کے نظریہ / مشن کے ساتھ کیا ہے، مجھے یقین ہے کہ وہ ہم سے ضرور ناراض ہوں گے۔
مسائل میں گھرے ہمارے پیارے ملک میں اقلیتوں کا جو حال ہے، اس پر بھی نظر ڈالتے ہیں۔ ہم نے اپنی منشا سے مسیحی برادری پر حملے کیے، انہیں معذور کیا، انہیں قتل کیا /ماورائے عدالت سزائیں دیں اور پھر اکثر تحقیقات سے سامنے آیا کہ انتہائی بےمقصد حیلے بہانے جو کہ زیادہ تر من گھڑت ہوتے ہیں، ان کی بنیاد پر ان کے گھروں اور محلوں کو نذر آتش کیا گیا جبکہ ہم ان کے گرجا گھروں میں بم دھماکے کرنے اور نذر آتش کرنے میں بھی پیچھے نہ رہے۔
ہم نے دیکھا کہ یکے بعد دیگرے نوجوان ہندو لڑکیوں کو اغوا کیا گیا اور پھر زبردستی ان کا مذہب تبدیل کروا کر، انہیں اغوا کاروں سے ان کی شادیاں کر دی گئیں۔ ہم نے اہل خانہ اور متاثرین کی چیخیں سنیں لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔
ہم ایک مخصوص کمیونٹی کو اسلامی عقیدے کا حصہ نہ ہونے اور آئین میں انہیں اقلیت قرار دینے سے بھی مطمئن نہیں ہیں بلکہ اس عقیدے کے ماننے والوں پر بھی حملے کرتے ہیں۔ اس کمیونٹی کے افراد کا قتل، اس کی املاک کو تباہ کرتے ہیں جبکہ چار دیواری میں بھی ان پر عقائد و رسومات ادا کرنے پر پابندی لگانا، معمول بن چکا ہے۔
اقلیتوں کی بات چھوڑیں جن کے آئین کے علاوہ حقیقی و عملی معنوں میں اس ملک میں کوئی حقوق نہیں، یہاں تو عددی لحاظ سے چھوٹے مسلم فرقوں کو بھی نہیں بخشا جاتا اور ان کے ارکان انتہائی مشتبہ الزامات کے تحت قتل یا قید و بند کی سختیاں جھیل رہے ہیں۔
توہین رسالت کے قانون کو ہتھیار بنا لیا گیا ہے اور یہ قانون پولیس یا عدالتوں نے نہیں بلکہ مشتعل ہجوم نے نافذ کیا ہے۔ مخصوص ذہنیت کے ایک ہجوم کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے اور جج، جیوری اور جلاد خود بننے کے لیے محض ایک الزام کافی ہوتا ہے جس کی بنیاد پر وہ سزا دے دیتے ہیں۔
اسی تقریر کے دوسرے حصے میں قائداعظم نے کہا، ’آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو، ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں‘۔ لیکن قرارداد مقاصد کے بعد سے بہت سی مثالیں سامنے آئیں جن میں ریاست نے عقیدے کو ریاستی معاملات چلانے میں استعمال کیا۔
جب ریاست میرے اور آپ کے عقیدے کو ریاستی معاملات چلانے میں استعمال کرنے لگتی ہے تو مفاد پرست گروہ عقیدے کی تشریح کا فیصلہ خود کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ قانون کی ان کی تشریح (بنیادی طور پر ہجوم کی حکمرانی) کا نفاذ بھی روز کا معمول بن جاتا ہے۔
کئی پہلوؤں سے ریاست اس کی ذمہ دار ہے۔ سالوں سے اس نے بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عقیدے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور اپنی طاقت میں اضافہ کیا۔ دوسرے الفاظ میں ایسی جنگیں لڑنے کے لیے ہم نے عقیدے کا استعمال کیا جوکہ ہمارے لیے فائدہ مند نہیں تھیں لیکن مخصوص لوگوں کے لیے دولت اور بے پناہ طاقت کا سبب بنیں۔
مثال کے طور پر اسٹیبلشمنٹ کا اپنی خارجہ پالیسی کے اہداف کے لیے انتہا پسندی کو ہوا دینے میں اکثر اپنے کردار کے لیے حوالہ دیا جاتا ہے، جسے ’قومی سلامتی کے تقاضے‘ بھی کہا گیا۔ اب ان پالیسیوں سے قومی سلامتی کو کیا حاصل ہوا اس کا فیصلہ ہم سب کو کرنا ہے۔ یہ وہ پالیسیاں تھیں جو ہمارے شہریوں اور فوجیوں کا خون بہاتی رہیں۔
اس سب سے پہنچنے والی تکالیف ناقابلِ بیان ہیں۔ شاید چند ذاتی مفادات کی خاطر انتہا پسندی اور عدم برداشت کو فروغ دینے میں سابق آمر جنرل ضیاالحق کا بدترین کردار رہا لیکن المیہ یہ ہے کہ وہ واحد نام نہیں۔ وہ تو 36 سال قبل حادثے میں جاں بحق ہوگئے، ان کے بعد کیا کس فوجی رہنما نے معنی خیز طریقے سے اس سڑن کو روکنے کی کوشش کی؟ اگر میں ایمانداری سے جواب دوں تو کوئی نہیں۔
اب اگر آپ اس سب میں سویلین حکمرانوں کے کردار کے حوالے سے دریافت کریں گے تو آپ بالکل حق بجانب ہوں گے۔ یہ سچ ہے کہ جب بات ’قومی سلامتی‘ کی آتی ہے تو کوئی بھی پاکستانی بتا سکتا ہے کہ حکومتی رہنما اس معاملے میں وہ اثرورسوخ نہیں رکھتے کہ وہ فیصلہ سازی کرسکیں۔ ہم نے دیکھا کہ جب نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ رہنماؤں کے ساتھ عسکریت پسندوں کے سروگیٹس کا معاملہ اٹھایا تو انہیں کس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
شاید نواز شریف کے ساتھ جو ہوا اس سے ان کے داماد نے سبق سیکھ لیا ہے اور وہ کھلے عام عدم برداشت کو فروغ دے رہے ہیں جبکہ وہ ایسے سزا یافتہ مجرم کی بڑائی کررہے ہیں جسے قتل کے جرم میں اس وقت پھانسی دی گئی کہ جب ان کے سسر نواز شریف کی حکومت تھی۔ جی ہاں منافقت ان لوگوں کے رویے کا لازمی حصہ ہے جو عقیدے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان کے حکام اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں پر عمل درآمد کروانے میں بارہا ناکام ہوئے۔ اس کی مثال دو اہم فیصلے ہیں۔ ایک سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی جانب سے 2014ء میں دیا گیا کہ جب پشاور میں گرجا گھر میں بم دھماکا ہوا اور دوسرا فیصلہ صرف دو سال قبل جسٹس منصور علی شاہ نے دیا تھا۔
آپ ان دونوں کو گوگل کرکے تفصیلات پڑھ سکتے ہیں، وہ واضح طور پر اقلیتوں کے حقوق اور ان کی مذہبی آزادی کو متعصبانہ رویے سے بچانے کے طریقے بتاتے ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان دو فیصلوں کے ساتھ بھی وہی ہوا جو ہمارے ملک میں دیگر فیصلوں کے ساتھ ہوتا ہے اور اس کا بھی مقدر وہی بنا جوکہ نام نہاد نیشنل ایکشن پلان کا تھا۔
20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان جسے پارلیمنٹ اور عسکری، دونوں رہنماؤں نے دستخط کے بعد ممکنہ وسیع تر اتفاق رائے سے منظور کیا تھا، اس پر دھول چڑھ چکی جبکہ دہشت گردی کا ناسور ایک بار پھر ہمارے شہریوں اور نوجوان فوجی کی جانیں لے رہا ہے۔
ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں اور مستقبل میں خطے کی سرکردہ معیشتوں میں شامل ہونے کی اپنی خواہش کا اعلان اکثر کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس معاملے میں حقیقت پسندی سے کام لینا ہوگا۔ انتہا پسندی ہماری جڑیں کمزور کررہی ہے۔ اگر ہم اس سے نمٹنے میں بے بس رہے تو ہمارا حال ایسی قوموں سے مختلف نہیں ہوگا جو انتہا پسندی کی لپیٹ میں آکر تباہی کا شکار ہوئیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abbas.nasir@hotmail.com ہے۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔