سوات: توہین مذہب کے الزام پر شہری کے قتل میں ’ملوث‘ 40 افراد گرفتار
خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کی پولیس نے تین روز قبل مدین میں مبینہ طور پر قرآن پاک کی بے حرمتی کے الزام میں زیر حراست ملزم کو زندہ جلانے کے واقعے میں ملوث 40 سے زائد ملزمان کو گرفتار کر لیا۔
ڈان نیوز کے مطابق ڈسٹرکٹ پولیس افسر(ڈی پی او) سوات ڈاکٹر زاہداللہ کے مطابق مختلف دفعات کے تحت درج مقدمے میں 49 ملزمان کو نامزد کیا گیا جبکہ ڈھائی ہزار نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حقائق جاننے اور واقعے میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ایس پی انویسٹی گیشن کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دی گئی۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں ڈی ایس پی اپر سوات، ایس ڈی پی او، تفتیشی افسر سمیت دیگر شامل تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے منظم طریقے سے شواہد اکٹھے کیے، جدید سائنسی اور تکنیکی بنیادوں پر کام کیا جس کے نتیجے میں گزشتہ رات مختلف کارروائیوں میں نامزد ملزمان میں سے 40 کو گرفتار کرلیا گیا۔
ڈی پی او سوات نے کہا کہ واقعے میں ملوث دیگر نامعلوم ملزمان کی شناخت جاری ہے۔
واضح رہے کہ 2 روز قبل سوات پولیس نے 2 روز قبل خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے علاقے مدین میں مبینہ طور پر قرآن پاک کی بے حرمتی کے الزام میں زیر حراست ملزم کو زندہ جلانے کے واقعے پر 2 افراد کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹس (ایف آئی آر) درج کی تھی لیکن تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی تھی۔
3 روز قبل مشتعل ہجوم نے سوات کے مدین پولیس تھانے میں گھس کر ملزم کو زندہ جلانے کے بعد اس کی لاش، پولیس اسٹیشن اور پولیس کی گاڑی کو آگ لگادی تھی۔
یاد رہے کہ توہین مذہب کے شبہ میں حالیہ ہفتوں میں یہ دوسرا واقعہ ہے جب مشتبہ شخص کو قتل کیا گیا، گزشتہ ماہ سرگودھا میں اسی قسم کے الزامات پر ایک شخص کو قتل کیا گیا تھا۔
مقامی لوگوں نے بتایا تھا کہ کچھ افراد نے بازار میں اعلان کیا کہ ایک شخص نے توہین مذہب کا ارتکاب کیا ہے اور پھر اس کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا، تاہم کچھ ہی دیر بعد سوات کے مشہور سیاحتی مقام مدین کی مساجد سے چند اعلانات کیے گئے جس نے لوگوں کو مشتعل کردیا۔
عینی شاہدین کے مطابق ہجوم نے پولیس اسٹیشن کا رخ کیا اور پولیس سے مطالبہ کیا کہ وہ مشتبہ شخص کو ان کے حوالے کردیں، پولیس کے انکار پر وہ زبردستی اسٹیشن میں داخل ہوئے جس پر پولیس اہلکار اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے بھاگ گئے، تاہم کشیدہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے مزید نفری طلب کی گئی۔
سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہجوم کی جانب سے پولیس اسٹیشن کو آگ لگائی جارہی ہے، اور مشتبہ شخص پر پیٹرول جھڑک کر آگ لگائی جارہی ہے۔
مدین پولیس اسٹیشن میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ریجنل پولیس آفیسر محمد علی گنڈا پور نے کہا تھا ’ہم نے واقعے کی تحقیقات شروع کردی ہیں اور اس حوالے سے معلومات اکٹھی کی جارہی ہیں، ابتدائی طور پر دو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں، ایک مقتول کے خلاف اور دوسری تھانے میں گھسنے اور توڑ پھوڑ کرنے پر ہجوم کے خلاف در ج کی گئی ہیں۔
مدین کے ایس ایچ او اسلام الحق نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا تھا کہ تفتیش کا عمل ابھی جاری ہے اور اس کے بعد کوئی بھی گرفتاری عمل میں لائی جائے گی۔
ایس ایچ او نے کہا تھا کہ مقتول کی شناخت محمد سلیمان کے نام سے ہوئی، جو سیالکوٹ کا رہائشی ہے اور اس نے اپنی شناخت سنی مسلمان کے طور پر کی تھی جب اسے تھانے لایا گیا تھا اور اس نے مبینہ فعل کے ارتکاب سے انکار کیا تھا، تاہم اس شخص کو لانے کے چند لمحوں بعد ایک ہجوم پولیس اسٹیشن پہنچ گیا۔