پاکستان

قومی اسمبلی اجلاس: ’ملک میں کتنی بے نظیر، کتنے لیاقت، کتنے بھٹو قربان کریں گے‘

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اپوزیشن رہنماؤں نے 'آپریشن عزم استحکام' کے خلاف احتجاج کیا جس پر وزیردفاع خواجہ آصف نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں فاٹا میں ’آپریشن عزم استحکام‘ کے خلاف اپوزیشن رہنماؤں کے احتجاج کے دوران تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان نے بے نظیر بھٹو، سائفر کیس اور 9مئی کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ آخر ہم کتنی بے نظیر، کتنے لیاقت علی خان، کتنے بھٹو قربان کریں گے۔

ڈان نیوز کے مطابق ڈپٹی اسپیکر غلام مصطفیٰ کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا، اجلاس کے آغاز پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے قرارداد ایوان میں پیش کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ اقلیتوں کے خلاف کارروائی کرنے والوں کو سزا دی جائے، اقلیتوں کو تحفظ دیا جائے، اقلیتوں کی حفاظت کو وفاقی اور صوبائی حکومتیں یقینی بنائیں۔

بعد ازاں وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس حوالے سے تقریر شروع کی تو اپوزیشن رہنماؤں نے احتجاج شروع کردیا، شور شرابے کے درمیان اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے حملے ہمارے لیے باعث شرمندگی ہیں، اس پر سب کا اتفاق رائے ہونا چاہیے۔

اپوزیشن کے شور شرابے کے باعث خواجہ آصف نے اپنی تقریر روک دی، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی سید غلام مصطفی شاہ نے کہا خواجہ صاحب آپ اپنی تقریر جاری رکھیں، خواجہ صاحب! آپ بات کریں آپ کا مائیک کھلا ہے۔

اس موقع پر سرکاری ٹی وی کی جانب سے نشریات کی آواز کو بند کردیا گیا۔

بعد ازاں خواجہ آصف نے کہا کہ یہ تو بلیک میلنگ ہورہی ہے، یہ ہمیں گالیاں نکال رہے ہیں، ابھی کل والی گالی کا مسئلہ حل نہیں ہوا یہ مزید گالیاں دے رہے ہیں۔

اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ جمعیت علمائے اسلام(ف) کے اراکین نے بھی احتجاج میں حصہ لیا، رہنماؤں نے ہمیں امن چاہیے کہ نعرے بھی لگائے۔

اس دوران وزیر دفاع نے مزید بتایا کہ میں نے آپ سے اجازت مانگی جب یہ ایوان سے باہر چلے گئے تھے، میں ایک ایسے مسئلے پر بولنا چاہتا ہوں جو سیاسی مسئلہ نہیں، وہ تنازع نہیں بلکہ ایسا مسئلہ ہے جس پر کسی کا بھی اختلاف نہیں ہوگا، یہاں اقلیتوں کو قتل کیا جارہا ہے، یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے، ہم اس کی وجہ سے شرمندہ ہورہے ہیں مگر یہ ہمیں بولنے نہیں دے دہے۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ یہاں گالیاں دی جارہی ہیں، یہ سیاست کر رہے ہیں، پاکستان میں کوئی مذہبی اقلیت محفوظ نہیں، ہم مسلمانوں کے اندر جو چھوٹے فرقے ہیں وہ تک محفوظ نہیں، یہ ایسی بات ہے کہ سب کو شرمسار ہونا چاہیے مگر ان کو شرم و حیا نہیں آرہی ہے۔

خواجہ آصف کی تقریر کے دوران اپوزیشن نے چور چور اور فارم 47 کی نعرے بازی کی۔

بعد ازاں وزیر نے بتایا کہ ہم ایک قرارداد لانا چاہتے ہیں تاکہ اقلیتیں محفوظ رہ سکیں ، یہ ملک سب کا ہے، جب اس موضوع پر ایوان میں بات کی جاتی ہے تو اپوزیشن والے اس موضوع کا گلہ گھونٹ رہے ہیں، یہ اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں، میں اس ایوان میں ان کے مسائل کا بھی جواب دوں گا مگر یہ مجھے بولنے نہیں دے رہے، اقلیتوں کئ قتل کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، ہمارا مذہب بھی اس کی اجازت نہیں دیتا، لوگ ذاتی جھگڑوں پو توہین کا الزام لگا کر لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اس وقت تمام لوگوں کو یکجا ہوجانا چاہیے۔

احتجاج کر کے یہ پاک فوج کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں، خواجہ آصف

انہوں نے بتایا کہ کل عزم استحکام کی جو ایپکس کمیٹی نے اجازت دی تو سب کو پتا کہ آرمی پبلک کے سانحے کے بعد ایپکس کمیٹی بنائی گئی اس میں پی ٹی آئی بھی شامل تھی، ہم اس کو بحال کر رہے ہیں، اس کو کابینہ میں لے کر جارہے ہیں، ہم اسے ایوان میں بھی لے کر آئیں گے، ہم کوئی ایسا کام نہیں کریں گے کہ اس کو نشانہ بنایا جا سکے، ان کو اعتراض ہے تو جب یہ مسئلہ ایوان میں آئے گا تب بھی اس پر بول سکتے ہیں، مگر یہ لوگ اپنی سیاسی اوقات دکھاتے ہیں، کل کی میٹنگ میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا موجود تھے، ان کے سامنے سب بات ہوئی، آج یہ دہشتگردوں کے ساتھ کھڑے ہیں احتجاج کر کے۔

وفاقی وزیر خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ احتجاج کر کے یہ پاک فوج کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں، شہدا کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں، یہ آج بھی 9 مئی پر کھڑے ہیں، یہ کہنا کہ فوج ملک اور شہدا ہمارے ہیں تو یہ سب جعلسازی ہے، یہ آج بھی اور کل بھی 9 مئی والے ہی ہیں، یہ مفادات کے لیے پینترے بدلتے ہیں، ترلے کرتے ہیں، پیر پڑتے ہیں اور گالیاں بھی دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ صرف اپنی سیاست کے ساتھ ہیں، یہ ملک اور آئین کے ساتھ نہیں، یہ اپنا چہرہ دکھا رہے ہیں، اپنی اوقات دکھا رہے ہیں، جو ان کا لیڈر اندر ہے وہ بھی پینترے بدلتا تھا، کبھی وہ باجوہ کو تاحیات ایکسٹینشن دیتا تھا تو کبھی ان کو گالیاں نکالتا تھا، ان کی جماعت کے لوگ ہم سے تکٹ مانگتے تھے، جب ہم نے نہیں دیا تو آج یہاں کھڑے ہو کر احتجاج کر رہے ہیں۔

بعد ازاں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق کا جو مسئلہ ہے اس کو ہم ایوان میں لے کر آئے ہیں مشترکہ طور پر، ہم نے ڈرافٹ میں یہ لکھا ہے کہ ہم تمام حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام لوگوں بالخصوص اقلیتوں کی جانوں کی حفاظت ہونی چاہیے، ان واقعات کی تفتیش ہونی چاہیے اور ملزم کو کیفر کردار تک پہنچنا چاہیے تو اس میں غلط کیا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک قومی مسئلہ ہے، اپوزیشن کے زیادہ لوگوں کو بولنے کا موقع دیا گیا ہے اور کیا کیا جائے؟ یہ لوگ اس مسئلے کو متنازع بنانا چاہتے ہیں جس پر پوری قوم متفق ہے۔

بعد ازاں چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے ایوان میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر ہاؤس کا کسٹوڈین ہوتا ہے، آپ دباؤ میں ہیں، آپ اپنی پارٹی کا دفاع کرتے ہیں، بس بہت ہوگیا۔

کوئی ایپکس کمیٹی پارلیمان سے بالاتر نہیں، بیرسٹر گوہر

ان کا کہنا تھا کہ جو ہمارا پوائنٹ آف آرڈر تھا وہ اس ملک اور ایوان کا مسئلہ ہے، ہم کہنا چاہ رہے تھے کہ ایک فیصلہ ہوا ہے ایپکس کمیٹی نے کیا ہے، ہم کہتے ہیں کہ اس سے پہلے جو بھی آپریشن ہوئے اس پارلیمان نے اس کے پیرا میٹرز طے کیے تھے، تو ہمارا پوائنٹ آف آرڈر تھا کہ اتنا بڑا فیصلہ کرنے جارہی ہے حکومت، اس ایوان میں سینیٹ میں پہلے بھی عسکری قیادت نے آکر بریفنگ دی ہے، یہ ایوان جیسا بھی ہے ہے یہ ایوان، کوئی ایپکس کمیٹی پارلیمان سے بالاتر نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہم چاہتے ہیں ایوان کی بالادستی قائم ہو اس کے مشترکہ اتفاق رائے کے ساتھ ہو، حکومت نے کسی بھی نکتے پر بھی ایوان کو اعتماد میں نہیں لیا، لیکن اس مرتبہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ قیادت پہلے ان کمیرہ بریفنگ دے پھر کوئی کارروائی ہو۔

بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ یہ اقلیتوں کے لیے قرارداد آئی ہے، کچھ ویب سائٹس ہیں جو توہین رسالت کرتے ہیں تواتر ہے، میں نے کہا کہ اس مسئلے کو صوبوں سے لے کر وفاق اپنے ہاتھ میں لے لے، اس میں کہا گیا کہ مشتعل ہجوم کے ہاتھوں لوگوں کو تشدد کا نشانہ نہ بنایا جائے تو میں نے کہا کہ اس میں یہ بھی ڈالیں کہ کوئی ادارے بھی ہم پر تشدد نہ کرے، ایک بندے کے تشدد پر قرارداد پاس ہورہی ہے تو ہم پر بھی تو روز تشدد ہوتا ہے اس لیے میں نے ان کو کہا کہ ابھی اس قرارداد کو روک لیں، سب کو آجانے دیں۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک پاکستان کا مسئلہ تھا تو کیا ہم نہیں بیٹھے ان کے ساتھ؟ ہم پاکستان دوست ہیں، ہمارا پوائنٹ آف آرڈر ابھی بھی ملٹری آپریشن پر ہے اس پر ہمیں توجہ دلانی ہے۔

شہریار آفریدی نے عمر ایوب، گوہر، اسد قیصر کو دو نمبر لوگ کہا، وزیر دفاع

اس کے بعد خواجہ اظہار الحسن نے کہا بجٹ تقریر کے دوران کوئی قرارداد اسمبلی میں نہیں پیش کی جاسکتی، اگر اس کی اجازت دی بھی گئی ہے تو اس پر بحث نہیں ہوسکتی، اور مجھے یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ اس ایوان میں کتنے حزب اختلاف ہیں؟ یہاں تو اسسٹنٹ اور دپٹی حزب اختلاف بھی موجود ہیں۔

بعد ازاں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا کہ میں یہاں احتجاج کر رہا ہوں، ہم بھاری اکثریت لے کر یہاں آئے ہیں، اس بجٹ پر صوبائی سرپلس پر بات آئی ہے، ہمارے صوبے کا فاٹا کے اخراجات ہیں 144 ارب روپے ہوچکے ہیں، حکومت 66 ارب روپے دے رہی ہے، آپ کا نیٹ ہائیڈل پرافٹ 80 ارب ہے، آپکا کل صوبے کو جو ملنا ہے وہ 158 ارب ہیں، یہ جو بجٹ سرپلس بتارہے ہیں وہ جھوٹے ہیں، وزیر دفاع تو ہے ہی اینٹی پاکستان اور اینٹی فوج۔

بعد ازاں وزیر دفاع نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ کل شہریار آفریدی صاحب نے ان کو دو نمبر لوگ کہا ہے، یہ سارے ان کے مطابق کومپرومائزڈ ہیں، انہوں نے ان کا نام لیا ہے، انہوں نے اسد قیصر، عمر ایوب، گوہر خان سب کا نام لیا ہے اور کہا کہ یہ دو نمبر لوگ ہیں۔

وزیر قانون اعطم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہمیں اس ایوان کو سمجھنا چاہیے، میری طبیعت نہیں کہ کسی چیز کو بلڈوز کریں، اس قرارداد میں کوئی بھی غلط بات ہوتی تو میں اسے کاٹ دیتا، ہم نے تو کہا کہ جہاں جہاں جس کی حکومت ہے وہ اس کو یقینی بنائیں، ریاست کی رٹ قائم ہونی چاہیے، یہ پاکستان کی بات ہے، لوگوں کی بات ہے، عزم استحکام کے معاملے پر وزیر دفاع نے بات کی لیکن آپ نے ایک لفظ نہیں سنا، کل ایپکس کمیٹی میں آپ کے وزیر اعلی بھی موجود تھے تو انہوں نے کوئی اختلاف نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ کابینہ اور ایوان میں آئے گا ہم نیشنل سیکیورٹی ایوان میں بلائیں گے، ہمارا وزیر اعظم یہاں بیٹھے گا آپ کے وزیر اعظم کی طرح ہم باہر نہیں بیٹھیں گے، ہم کوئی چیز چھپ کر نہیں کرتے، ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں۔

اس کے بعد پی ٹی آئی کے شہر یار آفریدی نے کہا کہ وزیر دفاع نے بہت بڑا الزام لگایا ہے، جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے، 75 سال کی عمر میں یہ کیا باتیں کر رہے ہیں، یہ میرا اپوزیشن لیدر ہے ان کے معاملے میں جانوں، ان کا پی ٹی آئی سے کوئی مقابلہ نہیں، وزیر دفاع اگر آپ میں ذرا حیا ہوتی تو آپ یہاں نہ ہوتے، میری ماں ریحانہ ڈار کو سلام۔

سود کو چھوڑ دیں گے تو سارے بجٹ ترقی کے بجٹ ہوں گے، علی محمد خان

علی محمد خان نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی حکومت آتی ہے جو کرنے والا کام ہے وہ نہیں کرتی، ہم کہیں گے برا بجٹ ہے، یہ کہیں گے اچھا بجٹ ہے لیکن قائد اعظم محمد جناح نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں بینکاری نظام کو اسلامی خطوط پر استوار کرنا ہو گا، انہوں نے ہمیں راستہ دیا کہ دنیا کو ہم سود سے پاک معیشت دیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم سود کو چھوڑ دیں گے تو سارے بجٹ ملک و قوم کی ترقی کے بجٹ ہوں گے، پھر چاہے وہ بجٹ مسلم لیگ(ن) بنائے، پیپلز پارٹی بنائے یا ہم خان صاحب بنائیں، ہم 75 سال سے اللہ رسولﷺ سے جنگ کررہے ہیں پھر کہتے ہیں غربت کیوں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مقدمہ جمہوریت آگے بات آئین پاکستان کی کرتے ہیں، بڑی بات ہوتی ہے جون اسٹیٹ ہے، کون وارث ہے، 25 کروڑ عوام نے نمائندوں کو منتخب کرنا ہے اور ریاست اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے اپنی طاقت کا استعمال کرے گی، کسی ادارے کے ذریعے نہیں، آرمی یا آئی ایس آئی کے ذریعے نہیں، کسی اور ادارے کے ذریعے بھی نہیں، یہ تو محض ریاست کے معاون بازو ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بازو بہت ضروری ہیں، جس طرح ہاتھوں کے بغیر ہم اپاہج ہیں، اپنی مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے لیکن وزیر قانون صاحب پالیسی سازی کون کرے گا، قائد اعظم نے کہا تھا کہ مسلح افواج اس ملک کے عوام کی خدمت کے لیے ہیں، آپ قومی پالیسیاں نہیں بناتے، ہم سویلین یہ فیصلے کرتے ہیں اور آپ کو ان پالیسیوں کو پورا کرنا ہے جو آپ کو سونپی گئی ہیں۔

بے نظیر بھٹو کے قتل، سائفر اور 9مئی پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے، علی محمد خان

تحریک انصاف کے رہنما نے کہا کہ یہ قوم تو چن لیتی ہے، اس قوم نے لیاقت علی خان کو بھی چُنا، کیوں اس کو چُنا دیا گیا، اس کے قاتلوں کو کیوں سہولت دی گئی ہے، آج اگر میرا لیڈر عمران خان کہتا ہے کہ حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ پڑھو تو اس لیے کہتا ہے کہ بھٹو پر ادھر ہم اور اُدھر تم کا الزام لگا لیکن کیا کسی کو اصل حقیقت کا پتا ہے کہ یحییٰ کا کیا کردار کیا، اس سے سیکھیں۔

انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھا دیا، میں بطور سیاسی کارکن مطالبہ کرتا ہوں کہ ایک سیاسی خاتون جو کھڑی ہو گئی اس کو لیاقت باغ میں شہید کردیا گیا، قوم کو بے نظیر بھٹو کے اصل قاتلوں کا چہرہ دکھایا جائے، اس پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر صاحب آپ کہتے ہیں جوڈیشل کمیشن، ٹھیک ہے ہم آپ کے ساتھ ہیں، 9مئی پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے، ہم جاننا چاہتے ہیں 9مئی کو جو کچھ ہوا کس نے کیا، وہ ہم میں سے ہی ہے یا کسی اور میں سے ہے، میرا لیڈر تو اس وقت حراست میں تھا، جیل میں تھا، 9مئی پر جوڈیشل کمیشن بنائیں اور جس نے کیا اس کو سزا دیں۔

علی محمد خان نے کہا کہ میں سائفر کیس میں ایک ایک دن عدالت جاتا رہا، عمران خان بری ہوا ہے، میں کہتا ہوں سائفر پر جوڈیشل کمیشن بنائیں اور جو بات نواز شریف کے ذاتی ترجمان محمد زبیر صاحب نے اس وقت کے آرمی چیف کے حوالے سے جو بات کہی تھی کہ اس پر بھی جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔

90 میں بے نظیر اور 93 میں نواز شریف کی حکومت کیوں ختم کی گئی، رہنما تحریک انصاف

انہوں کہا کہ میرا ایک سوال ہے کہ کب کب ایسا کیوں ہوتا ہے، ایک منتخب وزیراعظم کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے، 1988 میں جب بے نظیر کی حکومت آئی تو 1990 میں آئی جے آئی کس نے بنائی، کیوں اس کو پانچ سال پورے نہیں کرنے دیے۔

ان کا کہنا تھا کہ 90 میں نواز شریف آ گئے تو 1993 میں چاہے کتنا ہی قصور کیوں نہیں تھا، آرمی چیف کو برطرف کرنے کا اختیار قانون نے نواز شریف کو دیا تھا، کیوں اس کی حکومت ختم کی گئی، 1999 میں کیوں نواز شریف کو ہتھکڑیاں ڈال کر بھیجا گیا، جب نواز شریف کے خلاف کوئی خلاف جمہوریت کام ہوا ہے تو میں ایوان کے سامنے مقدمہ کیوں نہ رکھوں کہ آپ کے سابق وزیراعظم آپ کو نہیں پسند، آپ اس کی سیاست سے متفق نہیں، اس پر قاتلانہ حملہ ہوا، چار گولیاں کھا کر وہ ساڑھے تین سو دن سے جیل میں ہے تو اس پر جوڈیشل کمیشن کیوں نہ بنے۔

تحریک انصاف کے رہنما نے کہا کہ کتنی بے نظیر، کتنے لیاقت علی خان، کتنے بھٹو قربان کرو گے، مقدمہ جمہوریت یہ ہے کہ طاقت کے لیے جنگ نہ کرو، پاکستان کے عوام کے لیے لڑو، جب بات پاکستان، اسلام اور قائد اعظم کی ہو تو اپنے لیڈر کی غلط بات کو غلط کہیں، اللہ رسولﷺ کی بات پکڑ لو۔

اقلیتوں کے تحفظ کا بل ایوان میں منظور

بعد ازاں قومی اسمبلی نے اقلیتوں کے تحفظ کی قرارداد کو کثرت رائے سے منظور کرلیا۔

واضح رہے کہ 20 جون کو سوات میں مشتعل ہجوم نے مبینہ طور پر قرآن پاک کی بے حرمتی کے الزام میں زیر حراست ملزم کو مدین پولیس اسٹیشن کے اندر زندہ جلادیا اور تھانے کو بھی آگ لگادی تھی۔

مشتعل ہجوم نے ملزم کو مارنے کے بعد اس کی لاش، پولیس اسٹیشن اور پولیس کی گاڑی کو آگ لگادی تھی۔

سوات کے ڈی پی او ڈاکٹر زاہد اللہ نے ڈان کو بتایا کہ واقعے میں 8 افراد زخمی ہوئے۔

مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ کچھ افراد نے بازار میں اعلان کیا کہ ایک شخص نے توہین مذہب کا ارتکاب کیا ہے اور پھر اس کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا، تاہم کچھ ہی دیر بعد سوات کے مشہور سیاحتی مقام مدین کی مساجد سے چند اعلانات کیے گئے جس نے لوگوں کو مشتعل کردیا تھا۔

22 جون کو سوات پولیس نے مدین میں مبینہ طور پر قرآن پاک کی بے حرمتی کے الزام میں زیر حراست ملزم کو زندہ جلانے کے واقعے پر 2 افراد کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹس (ایف آئی آر) درج کرلی تھی۔

بعد ازاں آج پولیس نے سوات میں واقعے میں ملوث 23 افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔

قومی اسمبلی اجلاس: نامناسب الفاظ کے استعمال پر اپوزیشن رہنما ثنا اللہ مستی خیل کی رکنیت معطل

بجٹ 25-2024 پر بحث کیلئے سینیٹ، قومی اسمبلی کے اجلاس کل طلب

وزیر اعظم نے انسداد دہشت گردی کیلئے آپریشن ’عزم استحکام‘ کی منظوری دے دی