پاکستان

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان ملاقات بے نتیجہ ختم

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان وزیراعظم ہاؤس میں تقریباً ساڑھے 4 گھنٹے طویل ملاقات ہوئی۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان طویل اجلاس بے نتیجہ اور فریقین نے مذاکرات کا دوسرا دور آئندہ دو روز میں کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان وزیراعظم ہاؤس میں تقریباً ساڑھے 4 گھنٹے طویل ملاقات ہوئی۔

ملاقات میں پیپلزپارٹی کے مطالبات و تحفظات کا شق وار جائزہ لیا گیا۔

پیپلز پارٹی اپنے مطالبات کو تسلیم کرانے کے لیے مسلم لیگ(ن) کے سامنے ڈٹ گئی اور امید ظاہر کی کہ جلد پیپلز پارٹی کے تحفظات دور کردیے جائیں گے۔

مسلم لیگ(ن) کی مذاکراتی کمیٹی نے پیپلز پارٹی کو پنجاب سے متعلق صوبائی حکومت اور قائد نواز شریف سے بھی بات چیت کرنے کی یقین دہانی کرا دی۔

دونوں فریقین کے درمیان طویل اجلاس بے نتیجہ ختم ہو گیا اور مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی مذاکراتی کمیٹیوں نے ایک دو روز بعد دوبارہ اجلاس پر اتفاق کیا۔

پیپلز پارٹی کے وفد میں یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف، ندیم افضل چن اور علی گیلانی شامل تھے جبکہ حکومتی کمیٹی میں ایاز صادق، رانا ثنا اللہ، خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق شامل تھے۔

دوسری جانب پیپلزپارٹی کی مرکزی رہنما شازیہ مری نے کہا کہ بلاول بھٹو اور وزیراعظم کی ملاقات نتیجہ خیز نہیں رہی۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی مذاکرات پر یقین رکھتی ہے اور آئندہ بھی ملاقاتیں ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں وفاقی بجٹ پر تحفظات ہیں، ہم کسی کو بلیک میل نہیں کر رہے اور مہذب اندازمیں اپنے تحفظات سے آگاہ کر دیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم شہباز سے ملاقات کی تھی اور انہیں بجٹ منظور کرانے کی یقین دہانی کرا دی تھی۔

بلاول نے سندھ کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے مزید فنڈز مختص کرنے کے ساتھ ساتھ وفاق اور پنجاب کے بجٹ پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

پیپلزپارٹی نے جنوبی پنجاب میں انتظامی کنٹرول کا مطالبہ کیا تھا اور حکومت کو یاد دہانی کرائی تھی کہ انہوں نے پی ایس ڈی پی اور بجٹ کے حوالے سے وعدے پورے نہیں کیے۔

وزیراعظم نے بلاول بھٹو کو تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا تھا کہ بجٹ پر پیپلز پارٹی کے خدشات دور کیے جائیں گے اور پنجاب اور سندھ سے متعلق مطالبات بھی تسلیم کیے جائیں گے۔