مزید کے لیے کلک کریں j
ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں کچھ اصول اور پرنسپلز کی بات کی تھی، ان کو دہرانا چاہوں گا، پہلی بات تو ہے کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی 9.5 فیصد ہے، یہ سسٹین ایبل نہیں ہے، بار بار کہتا ہوں کہ خیرات سے اسکول، یونیورسٹیاں اور ہسپتال تو چل سکتے ہیں، ملک صرف ٹیکس سے چل سکتے ہیں، ہم ٹیکس ٹو جی ڈی پی کو بتدریج 13.5 فیصد پر لے کر جانا پڑے گا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ اس کے مختلف اقدامات ہیں کہ ہم اس کو وہاں لے کر کیسے جائیں گے، پہلا تو جو ریونیو اقدامات کا اعلان کیا گیا، اس میں یہ تھا کہ وہ تمام شعبے جو پہلے ڈائریکٹ ٹیکس کی مد میں نہیں تھے، انہیں اس میں لایا جائے، دوسرا یہ تھا کہ گزشتہ برس 39 کھرب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی، ہمیں اس چھوٹ کو ختم کرنا ہے۔
محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں ہم باقی سیکٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لا رہے ہیں، 31، 32 ہزار ریٹیلرز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں اور جولائی سے ان پر ٹیکس کا اطلاق ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہم انفورسمنٹ اور کمپلائنس کی طرف جا رہے ہیں، سسٹم میں جو لیکیجز ہیں، قوانین پہلے سے موجود ہیں لیکن ہم ان کو نافذ نہیں کر پا رہے، اس کے لیے ہمارے ٹیکس اتھارٹی کو آگے بڑھنا پڑے گا، اس میں سیلز ٹیکس اور ان کا فراڈ ہے، تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اسی طرح ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو ٹوبیکو کے شعبے سے شروع ہونا تھا، اس کے بعد چینی، کھاد، سیمنٹ اور دیگر سیکٹر میں جانا تھا، لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا، اس کی وجہ سے جو آمدنی ملنی چاہیے تھی نہیں مل سکی۔
مزید کے لیے کلک کریں
انہوں نے کہا کہ ہمیں ان ساری چیزوں کو ادارک ہے اور ہم ڈیجاٹزیشن کر رہے ہیں تاکہ انسانی عمل و دخل کم ہو، اس کے نتیجے میں شفافیت آئے گی، کرپشن کم ہو گی، کیوں لوگ ایف بی آر کے نیٹ میں نہیں آنا چاہتے؟ اس لیے نہیں آنا چاہتے کہ ہمیں جو ہراسمنٹ ہوتی ہے، ہمیں جو نوٹسز آتے ہیں، جو لوگ مجھے آ کر بتاتے ہیں، ان کو اس چیز کا ادارک نہیں ہے کہ میں پرائیویٹ سیکٹر میں رہ کر آیا ہوں۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے یہ کہنا کہ ہم ٹیکس نیٹ میں نہیں آئیں گے، یہ بھی درست بات نہیں ہے، ہمیں دونوں چیزوں کو بیلنس کرکے چلنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم خود مانیٹر کر رہے ہیں کہ ہم آٹومیشن کی طرف کیسے جا رہے ہیں، کیونکہ یہ بہت اہم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بات ہو رہی ہے کہ اپنے اخراجات کم کیوں نہیں کررہے، یہ بات درست ہے، حکومتی اخراجات میں دو چیزیں ہیں، جس کے بارے میں ہمیں دیکھنا ہے اور اس کو آگے لے کر جانا ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ جو سب سے آسان چیز ہے کہ جو شعبے صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں، وہاں وفاقی حکومت کو وزارتیں بند کردینی چاہیں، ان محکموں کو ضم کردینا چاہیے تاکہ خرچہ کم ہو۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ فرض کریں کہ پی ڈبلیو ڈی بند کردیتے ہیں، اس کے براہ راست ساڑھے تین، 4 ارب روپے کے اخراجات ہیں، جو بجٹ ہم نے پیش کیا ہے، اس میں تو یہ معمولی رقم ہے، یہ رقم نہیں بچی ہے، اصل میں بچت یہ ہوئی ہے کہ جو منصوبے یہ ہینڈل کرتے ہیں، اس میں سے کتنا خرچ ہوتا ہے، کتنا کرپشن کی مد میں جاتاہے، قومی خزانے کو اصل نقصان یہ ہے، اصل لاگت یہ ہے کہ جو رقم ہم مختص کرتے ہیں، اس میں سے کتنی خردبرد ہو جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نہ صرف اخراجات پر غور کر رہے ہیں بلکہ وفاقی سطح پر اس کو کم کریں گے اور بڑے مناسب اقدامات آپ کو اگلے ایک، ڈیڑھ مہینے میں پتا چلیں گے۔
مزید کے لیے کلک کریں
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہمارا دوسرا بڑا مسئلہ ریاستی ملکیتی ادارے ہیں، اس کا خسارہ کون برداشت کررہے ہیں، آپ لوگ برداشت رہے ہیں، جو لوگ کہتے ہیں کہ سرکاری ملکیتی اداروں کو چلنے دیا جائے، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کے 622 ارب روپے کے واجبات حکومت پاکستان کو منتقل ہوئے ہیں، اس کا قصور وار کون ہے، لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے تنخواہ دار طبقے کو اور مینوفیکچرنگ کو ریلیف نہیں دیا، کہاں سے ریلیف دیں، اگر یہ 650 ارب روپے بچتے۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ کی بات ہے، اسلام آباد ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ جولائی، اگست میں ہو جائے گی، اس کے علاوہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ کراچی اور لاہور کے ہوائی اڈوں بھی نجی شعبے کو دے دیں۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ اگر اس ملک نے آگے جانا ہے تو سب کچھ پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنا پڑے گا، مزید کہنا تھا کہ اگر اس ملک کو ریلیف چاہیے، اور انشا اللہ ہم ریلیف دیں گے، تو حکومت کا جتنا بوجھ ہے، ہمیں اس کو کم کرنا ہوگا اور ہم اس کو کم کرنے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا آئی ایم ایف یا کسی اور کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، ہماری معیشت میں زراعت کا عمل و دخل 40 فیصد کے قریب ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اویس لغاری پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیز کے کاپوریٹ بورڈز کو تبدیل کرنے جا رہے ہیں، حکومتی نمائندوں کو کم کیا جا رہا ہے، نجی شعبے کو لایا جا رہا ہے، ڈسکوز کے چیئرپرسن پرائیویٹ لوگ ہوں گے، یہ آسان کام نہیں ہے، میرا اپنا اندازہ ہے کہ جتنا ہم اسے نجی شعبے کے سپرد کرتے جائیں، اتنا ہی بہتر ہوگا۔