’کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرسکتا جس سے مشکلات ہوں،‘ عدت نکاح کیس کی سماعت ملتوی
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے دوران عدت نکاح کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی کیس جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے اور سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کردی، اس دوران جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں پہلے بھی دو بار عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے ، کوئی بھی ایسا فیصلہ نہیں کرسکتا جس سے مشکلات ہوں۔
ڈان نیوز کے مطابق سماعت ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکا نے کی، عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا، سلمان صفدر اور سردار مصروف عدالت میں پیش ہوئے جبکہ بشریٰ بی بی کے وکیل عثمان ریاض گل بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر پی ٹی آئی وکلا نے عدالت کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایات کے متعلق آگاہ کر دیا، سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ہائی کورٹ نے کہا ہے سزا معطلی کی درخواست پر 10 دن، مرکزی اپیلوں میں 30 دن میں فیصلہ کیا جائے، سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ استدعا ہے کہ بشریٰ بی بی کی سزا عید سے قبل معطل کر دیں۔
عمران خان نے وکیل سلمان اکرم نے دلائل دیے کہ میں آج ہی دلائل دینے کے لیے تیار ہوں، سب کچھ ہائی کورٹ سے نہیں لینا کچھ آپ سے بھی لینا ہے، جج نےئ ریمارکس دیے کہ میں عید سے پہلے سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ کروں گا، فیصلہ جو بھی ہو۔
جج افضل مجوکا نے استفسار کیا کہ خاور مانیکا کے وکیل رضوان عباسی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے تھے؟ سلمان صفدر نے بتایا کہ جی رضوان عباسی اسلام آباد ہائی کورٹ میں موجود تھے، خاور مانیکا کا کھویا ہوا اعتماد بھی حاصل کر لیا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں ڈیڑھ بجے تک وقفہ کر دیا
وقفے کے بعد دوران عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف اپیلیں جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے اور سزا معطلی کی درخواستوں پر بشری بی بی کے وکیل نے کہا کہ ہائیکورٹ کے تحریری حکمنامے پر ابھی تک دستخط نہیں ہوئے ، سلمان اکرم راجا نے جج سے استدعا کی کہ آپ سماعت کل کے لیے رکھ لیں، جج افضل مجوکا نے کہا کہ کل میں نے جیل وزٹ پر جانا ہے، مصروفیت ہے، ساڑھے تین بجے تک اگر ہائی کورٹ کا تحریری فیصلہ آگیا تو کل سماعت رکھ لیں گے ، نہیں تو پرسوں رکھ لیں گے ، اس کیس میں پہلے بھی دو بار عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے ، کوئی بھی ایسا فیصلہ نہیں کرسکتا جس سے مشکلات ہوں۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 8 بجے تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ 11 جون کو اسلام آباد کی سیشن عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت نکاح کیس کی جلد سماعت مقرر کرنے اور سزا معطلی کی درخواست پر سماعت 13 جون تک ملتوی کردی تھی۔
واضح رہے کہ 7 جون کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی دورانِ عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف اپیلیں جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے اور سزا معطلی کی درخواستوں پر سماعت 11 جون تک ملتوی کردی تھی۔
یاد رہے کہ 4 جون کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت نکاح کیس کی جلد سماعت اور سزا معطلی کی درخواست پر 7 جون کو دلائل طلب کرلیے تھے۔
دوران سماعت بشریٰ بی بی کے وکیل سلمان صفدر نے مؤقف اپنایا کہ عدت نکاح کیس میں فروری سے دلائل دے رہے ہیں، بشریٰ بی بی بیمار بھی ہیں، اس پر جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ عدت میں نکاح کیس کی فائل کل مارک ہوئی، 5 مرتبہ کیس کال کیا، کوئی پیش نہیں ہوا، اس لیے عدت میں نکاح کیس میں 25 جون کی تاریخ مقرر کر دی، بشریٰ بی بی کی جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے کی درخواست پر نوٹس جاری کر دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ 3 جون کو سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف عدت نکاح کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواست منظور کرلی تھی۔
واضح رہے کہ 29 مئی کو کیس کی سماعت کے دوران سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے جج شاہ رخ ارجمند پر اعتراض کیا تھا۔
خاور مانیکا نے سیشن جج سے مکالمہ کیا تھا کہ ہمارا کیس کسی اور عدالت میں ٹرانسفر کر دیں، سیشن جج شاہ رخ ارجمند نے ریمارکس دیے کہ عدم اعتماد کی درخواست پہلے بھی خارج ہو چکی ہے۔
اس پر خاور مانیکا نے جج سے کہا کہ میں آپ سے فیصلہ نہیں کروانا چاہتا، جج نے دریافت کیا کہ اس کی وجہ کیا ہے؟
خاورمانیکا نے بتایا کہ مجھے نہیں معلوم مگر بانی پی ٹی آئی نے پچھلی عدالتوں میں بھی ایسا ہی کیا، سیشن جج شاہ رخ ارجمند نے ریمارکس دیے کہ ایک بات چیت ہوتی، کچھ ٹھوس وجہ ہے تو بتائیں؟
خاور مانیکا نے کمرہ عدالت میں پی ٹی آئی کارکنان کی نقل اتارتے ہوئے کہا کہ جج بیٹھے ہوئے ہیں اور پی ٹی آئی والے ناچ رہے۔
بعد ازاں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے اپیلیں کسی دوسری عدالت میں منتقل کرنے کے لیے رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھ دیا تھا۔
انہوں نے خط میں لکھا کہ خاور مانیکا کی جانب سے کھلی عدالت میں عدالت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا، پہلے بھی عدالت پر عدم اعتماد کی درخواست مسترد کی جا چکی ہے، عمران خان اور بشریٰ بی بی کی عدت میں نکاح کیس میں اپیلیں کسی دوسری عدالت کو منتقل کردی جائیں، شکایت کنندہ اور ان کے وکیل کی جانب سے اپیلوں میں تاخیری حربے استعمال کیے جاتے رہے، اپیلوں پر فیصلے کے لیے عدالتی ٹائم فریم مقرر کیا جائے۔
واضح رہے کہ 31 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے دورانِ عدت نکاح کیس خارج کرنے کے لیے بانی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
قبل ازیں 18 جنوری کو دوران عدت نکاح کیس کے خلاف عمران خان کی درخواست پر کیس فائل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو ارسال کردی گئی تھی۔
تاہم یہ واضح رہے کہ 16 جنوری کو غیر شرعی نکاح کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد کی جاچکی ہے۔
15 جنوری کو عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے بھی غیر شرعی نکاح کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا، بشریٰ بی بی کی درخواست پر 17 جنوری کو کیس فائل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو ارسال کردی گئی تھی۔
3 فروری کو سابق وزیراعظم و بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو غیر شرعی نکاح کیس میں 7، 7 سال قید کی سزا سنادی گئی تھی۔
پسِ منظر
واضح رہے کہ 25 نومبر کو اسلام آباد کے سول جج قدرت کی عدالت میں پیش ہو کر بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف دوران عدت نکاح و ناجائز تعلقات کا کیس دائر کیا تھا، درخواست سیکشن 494/34، B-496 ودیگر دفعات کے تحت دائر کی گئی۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ میراتعلق پاک پتن کی مانیکا فیملی سے ہے، بشریٰ بی بی سے شادی 1989 میں ہوئی تھی، جو اس وقت پر پُرسکون اور اچھی طرح چلتی رہی جب تک عمران خان نے بشریٰ بی بی کی ہمشیرہ کے ذریعے اسلام آباد دھرنے کے دوران مداخلت نہیں کی، جو متحدہ عرب امارات میں رہائش پذیر اور درخواست گزار کو یقین ہے کہ اس کے یہودی لابی کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں۔
خاور مانیکا نے بتایا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی شکایت کنندہ کے گھر میں پیری مریدی کی آڑ میں داخل ہوئے اور غیر موجودگی میں بھی اکثر گھر آنے لگے، وہ کئی گھنٹوں تک گھر میں رہتے جو غیر اخلاقی بلکہ اسلامی معاشرے کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ازدواجی زندگی میں بھی گھسنا شروع ہوگئے، حالانکہ اسے تنبیہ کی اور غیر مناسب انداز میں گھر کے احاطے سے بھی نکالا۔
خاور مانیکا نے درخواست میں بتایا تھا کہ ایک دن جب اچانک وہ اپنے گھر گئے تو دیکھا کہ زلفی بخاری ان کے بیڈ روم میں اکیلے تھے، وہ بھی عمران خان کے ہمراہ اکثر آیا کرتے تھے۔
انہوں نے درخواست میں بتایا تھا کہ بشریٰ بی بی نے میری اجازت کے بغیر بنی گالا جانا شروع کر دیا، حالانکہ زبردستی روکنے کی کوشش بھی کی اس دوران سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
مزید لکھا تھا کہ بشریٰ بی بی کے پاس مختلف موبائل فونز اور سم کارڈز تھے، جو چیئرمین پی ٹی آئی کی ہدایت پر فرح گوگی نے دیے تھے۔
خاور مانیکا نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ نام نہاد نکاح سے قبل دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ غیر قانونی تعلقات قائم کیے، یہ حقیقت مجھے ملازم لطیف نے بتائی۔
درخواست میں مزید بتایا تھا کہ فیملی کی خاطر صورتحال کو بہتر کرنے کی کوشش کی لیکن یہ سب ضائع گئیں، اور شکایت کنندہ نے 14 نومبر 2017 کو طلاق دے دی۔
خاور مانیکا کی درخواست کے مطابق دوران عدت بشریٰ بی بی نے عمران خان کے ساتھ یکم جنوری 2018 کو نکاح کر لیا، یہ نکاح غیر قانونی اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
مزید لکھا تھا کہ دوران عدت نکاح کی حقیقت منظر عام پر آنے کے بعد دونوں نے مفتی سعید کے ذریعے فروری 2018 میں دوبارہ نکاح کر لیا، لہٰذا یہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 496/ 496 بی کے تحت سنگین جرم ہے، دونوں شادی سے پہلے ہی فرار ہوگئے تھے۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو طلب کیا جائے اور انہیں آئین اور قانون کے تحت سخت سزا دی جائے۔
11 دسمبر کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف خاور مانیکا کی جانب سے دائر غیر شرعی نکاح کیس کو قابل سماعت قرار دے دیا تھا۔