بجٹ 25-2024ء: عوام با مقابلہ اشرافیہ کا نظام
حالیہ دنوں میں بجٹ کے حوالے سے بہت سی تحریریں آپ کی نظروں سے گزریں گی جن میں اس کے مختلف زاویوں کا ذکر کیا جائے گا لیکن اس سال میرے ذہن میں کچھ اور ہے۔
رواں سال کا بجٹ ظاہر کرتا ہے گزشتہ 25 سال سے پاکستان اپنا بجٹ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط کے مطابق ترتیب دے رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً گزشتہ 25 سال سے یکے بعد دیگرے آنے والے میزانیوں میں ہمارے ملک کی توجہ کا مرکز اخراجات میں احتیاط اور کٹوتی کے حوالے سے اہم اقتصادی منصوبہ بندی رہی۔ اس دوران صرف تین ادوار ایسے آئے جن میں ہم نے مختصر عرصے کے لیے معاشی ترقی دیکھی اور وہ بھی بیرونی قرضوں کی مدد سے ممکن ہوسکا۔
اس کہانی کو مزید سمجھنے کے لیے ہم مزید ماضی میں جاسکتے تھے لیکن سال 2000ء ایک اہم موڑ ہے جس سے آغاز کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس سال ہم نے آئی ایم ایف کے سخت اسٹینڈ بائے اریجمنٹ کا نفاذ دیکھا جوکہ اتنا ہی سخت تھا جتنا کہ ہم حالیہ دور میں آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان مہنیوں کے سخت مذاکرات میں دیکھ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ 2000ء کے اسٹینڈ بائے اریجمنٹ کے نکات بھی موجودہ پروگرام سے مماثلت رکھتے تھے۔
تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہم دائرے میں گھوم کر پھر اسی موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ہم 25 سال قبل تھے یعنی مختصر اور سخت معاہدے سے شروعات اور پھر طویل المدتی پائیداری کے لیے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلیٹی (آئی ایم ایف کا پروگرام جو ممالک کو طویل المدتی ادائیگیوں کے توازن میں مدد فراہم کرتا ہے) کی جانب جانا، ہم اسی مقام پر کھڑے ہیں کہ جہاں ہم 2001ء کے موسمِ گرما میں تھے۔
یکے بعد دیگرے آئی ایم ایف پروگرامز میں بار بار اخراجات میں کمی پر زور نے ہمارے ملک کو بھنور میں دھکیل دیا ہے۔ 2000ء سے اب تک 25 بجٹ آچکے۔ اتنے میزانیے گزر جانے کے باوجود چند مسائل وہی ہیں جن کا سامنا ہمیں آج بھی ہے جیسے بیرونی قرضوں کا بوجھ، حکومت کے لیے ریونیو حاصل کرنے کے محدود ذرائع، توانائی کا بوسیدہ نظام، ملک میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو غذائیت کی کمی اور تعلیم کی سہولیات سے محرومی جبکہ معاشرے کے خراب حالات نے سب کو پریشان کیا ہے۔
آج پاکستان کی معاشی پالیسی اس طرح ترتیب دی گئی ہے کہ اگلے جائزے میں ملک آئی ایم ایف کے اہداف پر پورا اتر سکے۔ اس کے علاوہ تمام معاشی پہلو غیر اہم ہیں۔ بجٹ میں جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ ایسے اہداف ہیں جیسے بنیادی خسارے اور محصولات کے اہداف، ترقیاتی منصوبوں میں اخراجات کی مختص حد، بیرون ملک سے آنے والی مالی امداد اور شاید ان چیزوں پر نظر کہ ملکی اخراجات کو کس کس طرح کم کیا جا سکتا ہے۔
گزشتہ 25 سال میں ایسا کوئی بجٹ نہیں آیا اور نہ ہی حالیہ بجٹ میں بنیادی تبدیلیاں لانے کے حوالے سے کوئی اہم اقدامات لیے گئے ہیں۔
اس کے نتائج ہم نے قومی اقتصادی سروے میں بھی دیکھے جو رواں ہفتے سامنے آیا۔ سماجی اشاریوں پر ایک مختصر نظر ڈالتے ہیں۔
1980ء کی دہائی میں ایک ہزار 84 افراد کے لیے ایک پرائمری اسکول تھا، آج یہ عدد ایک ہزار 500 ہوچکا ہے۔ ثانوی اسکولز کی بھی یہی صورتحال ہے۔ 1980ء کی دہائی میں 14 ہزار 161 افراد کے لیے چھٹی سے آٹھویں جماعت تک کا ایک اسکول تھا لیکن اب یہ عدد 50 ہزار سے تجاوز کرچکی جبکہ ہائی اسکولز کے حالات کو بدتر ہے۔ 1980ء کی دہائی میں 17 ہزار 833 افراد کے لیے ایک ہائی اسکول تھا لیکن اب یہ تعداد 68 ہزار 413 تک بڑھ چکی۔
یہ ایک مثال ہے کیونکہ یہ صرف آبادی کے مطابق اسکولز کی تعداد بتاتی ہے۔ وسیع منظرنامے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اسکول جانے والی عمر کے بچوں کے لیے کتنے پرائمری اسکولز ملک بھر میں دستیاب ہیں اور پھر دیکھنا ہوگا ملک بھر میں بچوں کو بنیادی تعلیم تک رسائی کے لیے اسکولز کی ان تعداد کو کس طرح تقسیم کیا گیا ہے اور پھر ساتھ ہی معیار تعلیم کو بھی جانچنا ہوگا۔ بدقسمتی سے اقتصادی سروے میں اس طرح کے کوئی اعداد شامل نہیں۔
فی الحال انہیں اعدادوشمار سے کام لیتے ہیں کیونکہ بنیادی تصور تو تبدیل نہیں ہوگا۔ ملک میں ان بچوں کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوا ہے جنہیں پرائمری اور ثانوی تعلیم تک رسائی کی ضرورت ہے لیکن اس طلب کو پورا کرنے کے لیے ہمارے ملک کی صلاحیتوں میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔
نصف صدی بعد جہاں ہمارا ملک اب بھی قرضوں کے بوجھ اٹھانے اور حکومتی اخراجات اٹھانے کے لیے وسائل اکٹھا کرنے کی جدوجہد کررہا ہے وہیں ہمیں اپنی آئندہ نسل کو تعلیم فراہم کرنے اور انہیں جدید ملک کے لیے پیداواری شہری بنانے کے لیے بنیادی ہنر اور مہارتوں سے آراستہ کرنے میں بھی ناکامی کا سامنا کررہے ہیں۔
صحت کے شعبے میں بھی حالات مختلف نہیں۔ مثال کے طور پر 1980ء کی دہائی میں ایک لاکھ 17 ہزار 926 افراد کے لیے ایک ہسپتال تھا لیکن 2023ء میں یہ عدد بڑھ کر ایک لاکھ 88 ہزار ہوچکا۔
اب ذرا یہ تصور کریں۔ ان اعداد میں بہتری آنی چاہیے نہ کہ مزید خرابی۔ ہمیں یہ بات کرنی چاہیے کہ سماجی اشاریوں میں ہماری بہتری کی شرح کیا رہی بلکہ اس کے بجائے ہم دیکھ رہے ہیں ہر سال اور ہر دہائی بعد یہ مزید خراب ہوتے جارہے ہیں۔
کفایت شعاری یعنی ملکی اخراجات کم کرنے، معیشت کو بہتر بنانے کے لیے بیرونی قرضے لینا اور پھر اسے ادا کرنے کے لیے اخراجات میں مزید کٹوتی کرنا، اس دائرے نے ہمارے ملک کے لیے ایک انتہائی غلط میراث بنائی ہے۔ اس کا سب سے بدترین پہلو یہ ہے کہ اس روش نے عوام اور نظام کے درمیان ایک خلا پیدا کردیا ہے۔
جب بھی کچھ حد تک معیشت اچھی ہوتی ہے، عمومی طور پر اس سے فائدہ اٹھانے والا دولت مند طبقہ ہوتا ہے۔ اور جب بھی معاشی بحران آتا ہے، حکومت سخت اقدامات کرتی ہے جس کی لپیٹ میں غریب اور متوسط طبقہ آتا ہے۔ بجٹ 25-2024ء بھی کچھ مختلف نہیں۔ نہ ہی اس میں وہ استحکام ہے جس کے حوالے سے حکومت خود کو داد دے رہی ہے۔ ہم آج بھی اسی بھنور میں پھنسے ہیں۔
یہاں ہم جس نظام کی بات کررہے ہیں وہ ریاست اور سرمایہ دار طبقے کا اتحاد ہے جوکہ ہمارے ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ یہی وہ نظام ہے جس کی بنا پر معاشی معاملات آسانی سے چلتے ہیں اور سب کو روزگار اور آمدنی میسر ہوتی ہے۔ لیکن اس کا بھی ایک سیاہ پہلو ہے، اس نظام کو اس طرح تشکیل دیا گیا ہے کہ اشرافیہ اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ یہ اکثریتی آبادی کے لیے مواقع کو محدود کرتا ہے اور اس دولت پر قابض ہوجاتا ہے جوکہ غریب اور متوسط طبقے کو منتقل ہونی چاہیے۔
یہ نظام چلتا ہی یوں ہے کہ جس میں غریب طبقے سے دولت امیر طبقے کو منتقل ہوتی ہے۔ چاہے معیشت ترقی کررہی ہو یا بحران کا شکار ہو، یہ روش یونہی چلتی رہتی ہے۔ جبکہ ٹیکس کا نظام بھی اسی روش کو فائدہ پہنچانے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ ملک میں بہت سے پراپرٹی قوانین ایسے بنائے گئے ہیں جن سے اشرافیہ کے لیے غریبوں سے دولت لے کر اپنے پاس رکھنا آسان ہوجائے۔
سال 2000ء کے بعد سے ہم اسی چکر سے تین سے چار بار گزر چکے ہیں۔ ایسا کتنی بار ہوا، اس کا حساب لگانا تھوڑا مشکل تھا کیونکہ اس دوران ایسے ادوار بھی آئے کہ جہاں بیرونی قرضوں کی مدد سے معیشت نے عارضی ترقی بھی کی لیکن جب قرض لینے کا سلسلہ رکا تو ہماری معاشی نظام کو شدید دھچکا لگا جس کا بوجھ مکمل طور پر غریب کے کاندھوں پر آیا۔
کل وزیرخزانہ نے مشکل فیصلوں کے بارے میں بات کی جو نظام کو درپیش مسائل دور کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ حقیقی مشکل فیصلوں کے لیے متوسط اور غریب طبقات سے بات کرنے کی ضرورت ہے اور یہ جانیں کہ گزشتہ 3 سالوں سے انہوں نے ریکارڈ توڑ مہنگائی کا کس طرح مقابلہ کیا ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@
ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔