پاکستان

نئے مالی سال کے بجٹ پر ملا جلا ردعمل، سابق وزرا کی حکومت پر تنقید

مفتاح اسماعیل اور شبرزیدی نے بجٹ پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تو ماہرین اقتصادیات نے اسے معیشت کی بہتری کی جانب مثبت قدم قرار دیا۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے پیش کیے گئے نئے مالی سال کے بجٹ پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے جہاں سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل اور سابق چیئرمین ایف بی آر شبرزیدی نے بجٹ پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تو ماہرین معیشت نے اسے معیشت کی بہتری کی جانب مثبت قدم قرار دیا ہے۔

جیونیوز کی خصوصی نشریات میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھاکہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ بڑھا دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ توقع تھی ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا، ریٹیلرز سے انکم ٹیکس کی مد میں مینوفیکچررز سے ود ہولڈنگ ٹیکس لینےکا کہا گیا ہے لیکن کیونکہ 95 فیصد ریٹیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز نان فائلرز ہیں، جس کی وجہ سے بوجھ مینوفیکچررز پر پڑے گا اور وہ یہ رقم کبھی اپنی جیب سے نہیں دے گا۔

انہوں نے لوہے اور اسکریپ کی سیلز پر چھوٹ کے اعلان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ لگتا ہےاس شعبے میں کسی کی بڑی پرچی چلی ہے۔مفتاح اسماعیل کا کہنا تھاکہ بجٹ میں اصلاحات سے متعلق حکومت کاکوئی اقدام نظر نہیں آیا، صرف وفاق کی پنشن ایک ہزارارب سے زائد ہے اور حکومت نے پینشن سے متعلق اصلاحات پر کام نہیں کیا۔

دوسری جانب سابق چیئرمین ایف بی آر شبرزیدی نے بھی بجٹ بالخصوص ایکسپورٹس پر ٹیکس ایک فیصد سے بڑھا کر 40 فیصد کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کے ساتھ دھوکا ہورہا ہے اور دعویٰ کیا کہ بیوروکریسی چاہتی ہے کہ حکومت کوعوام کے سامنے شرمندگی کا سامنا ہو۔

ان کا مزید کہنا تھاکہ پاکستان میں حکومت پراپرٹی ٹیکس لینے کے لیے تیار نہیں اور یہ بجٹ وہ بجٹ نہیں جو 30 جون کو منظور ہو گا۔

لاہور میں ڈان کے سینئر رپورٹر ناصر جمال نے بجٹ پر مثبت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ انہیں امید نہیں تھی کہ حکومت ریئل اسٹیٹ کے شعبے پر ٹیکس لگائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے توقع نہیں تھی کہ مختلف شعبوں میں دی گئی سبسڈی کو ختم کرے گی، یہ خوشگوار سرپرائز ہے اور مجھے امید نہیں تھی کہ وہ اس حد تک مثبت اقدام کریں گے۔

انہوں نے حکومت نے ریٹیل سیکٹر کو دستاویزی شکل دینے اور ٹیکس لگانے کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں بھی ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

دوسری جانب معیشت پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی خرم حسین نے کہا کہ مجھے بجٹ میں اصلاحات کے حوالے سے کوئی پیشرفت نظر نہیں آئی۔

ان کا کہنا تھا کہ چاہے ریونیو کے شعبے کی بات کی جائے یا کسی اور کی، تفصیلات آنے کے بعد ہی معلوم ہو گا کہ یہ ٹیکس استثنیٰ کے خاتمے کو کس حد تک لے جانا چاہتے ہیں۔

ماہری اقتصادیات علی حسنین نے بھی بجٹ پر مثبت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ نئے مالی سال کے بجٹ میں کچھ چھوٹے مثبت قدم اٹھائے گئے ہیں۔

انہوں نے نان فائلر پر کیپیٹل گین ٹیکس عائد کرنے کی تجویز کا بھی خیر مقدم کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر صحیح قدم نہ اٹھائے گئے تو ہر گزرتے سال کے ساتھ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جائے گا۔