نقطہ نظر

گلگت بلتستان کے دلکش رنگ: خموش اور منٹھوکھا آبشار کا ’یادگار‘ سفر (تیسری قسط)

ہم نے سی ڈی 70 موٹرسائیکل پر منٹھوکھا جانے کا فیصلہ کیا جوکہ پہلے ہی سمجھ جانا چاہیے تھا کہ یہ فیصلہ غلط ثابت ہوگا۔

اس سلسلے کی گزشتہ قسط یہاں پڑھیے۔


دیوسائی کے سحر انگیز سفر کے بعد اب ہماری اگلی منزل تھی منٹھوکھا اور خموش آبشار جوکہ بلتستان کے ضلع کھرمنگ میں واقع ہے۔ دیگر مقامات کی نسبت منٹھوکھا جانے والے راستے کو آسان سمجھا جاتا ہے لیکن ہمارے لیے یہ سفر سب سے زیادہ مشکل اور اذیت ناک ثابت ہوا۔

کھرمنگ جانا بہت ہی آسان ہے اور منٹھوکھا آبشار اور خموش آبشار تک کا راستہ قدرے بہتر ہے۔ منٹھوکھا آبشار اسکردو شہر سے 78 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ بلتستان آنے والے تقریباً تمام سیاح یہاں کی سیر کو ضرور جاتے ہیں۔ اس آبشار کا شمار پاکستان کی چند بڑی آبشاروں میں ہوتا ہے۔

یہ آبشار بلتستان کے ضلع کھرمنگ میں واقع ہے جس کے لیے اسکردو سے بہ راستہ کارگل روڈ سے گزرتے ہوئے کئی کلومیٹر سفر طے کرنے کے بعد کھرمنگ گاؤں کا آغاز ہوجاتا ہے جہاں سے پتھریلے راستے پر کچھ کلومیٹر مزید سفر کرنے کے بعد آپ اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔ اگر خموش آبشار کی بات کریں تو وہ اسکردو شہر سے تقریباً 122 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جبکہ اگر آپ منٹھوکھا سے آگے جاتے ہیں تو مزید 51 کلومیٹر سفر طے کرنے کے بعد آپ اس مقام پر پہنچ جائیں گے۔ یہ آبشار بھی کھرمنگ میں واقع ہے۔ یہاں کے مقامی لوگ بھی بلتی زبان کا استعمال کرتے ہیں اور یہ لوگ انتہائی مہمان نواز ہوتے ہیں۔

ہمارا سفر کچھ یوں شروع ہوا کہ ہم نے سی ڈی 70 موٹرسائیکل پر منٹھوکھا جانے کا فیصلہ کیا جوکہ ہمیں ہی سمجھ جانا چاہیے تھا کہ یہ فیصلہ غلط ثابت ہوگا۔ اگر آپ سیاحت کی غرض سے وہاں جائیں تو موٹرسائیکل کا ماڈل 125 سے اوپر ہو یا پھر اسکردو شہر سے پراڈو یا دیگر اقسام کی جو گاڑیاں کرائے پر دستیاب ہوتی ہیں، ان کا استعمال کریں۔

صرف میں اور میرا دوست حسن منٹھوکھا جانا چاہتے تھے لہٰذا ہم دونوں ایک ہی موٹرسائیکل پر سوار ہو کر اپنی اگلی سیاحتی منزل کی جانب روانہ ہوئے۔ ہم سفر کا لطف اٹھاتے ہوئے اپنی موٹرسائیکل کو ایک مخصوص رفتار کے ساتھ چلارہے تھے۔ ابھی ہم نے تقریباً 25 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تھا کہ ہمیں پہلا سرپرائز ملا اور وہ موٹر سائیکل کا پچھلا ٹائر پنکچر ہونے کی صورت میں تھا۔

ٹائر پنکچر ہوا تو ہمارا سفر وہیں رک گیا۔ کچھ دور پیدل سفر کرنے کے بعد پنکچر لگوایا اور پھر رخت سفر باندھا، مگر کچھ دیر بعد ہی پتھریلی سڑک پر ہماری بائیک کا ٹائر ایک بار پھر دھوکا دے گیا۔ اس دفعہ جب ہم نے پنکچر والا ڈھونڈا تو ہم نے پوری ٹیوب تبدیل کروائی جس کے بعد ہم نے بقیہ سفر اطمینان سے طے کیا۔ بلآخر کافی تگ و دو کے بعد ہم منٹھوکھا آبشار پہنچ گئے۔

منٹھوکھا آبشار کی اونچائی تقریباً 180 فٹ ہے اور اس کا پانی شدید سرد موسم میں نیچے گرتے ہوئے جم جاتا ہے جوکہ آنکھوں کو ایک انتہائی حسین منظر پیش کرتا ہے۔ اس مقام پر بھی ٹکٹ کے لیے ایک مختص رقم ادا کرنی ہوتی ہے جس سے یہاں کی صفائی سمیت دیکھ بھال کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔ اس آبشار کے آس پاس منٹھوکھا کی انتظامیہ کی جانب سے ٹری ہاؤسز بنائے گئے ہیں تاکہ سیاح قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہوسکیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں آبشار کا پانی نیچے بہنے والے دریا میں شامل ہوتا ہے اور اس دریا میں ٹراؤٹ مچھلیاں بھی پائی جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ مقامی انتظامیہ کی جانب سے یہاں کچرا پھینکنے کی ممانعت ہے کیونکہ کچرے کی وجہ سے مچھلیوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ انتطامیہ نے ہر تھوڑے فاصلے پر کوڑے دان رکھوائے ہیں۔

ہم نے یہاں آبشار کے پانی اور دلفریب مناظر کا لطف اٹھایا۔ آبشار کے کنارے کرسیوں پر بیٹھ کر ہم نے بیرے کو چائے کا آرڈر دیا۔ اس مقام پر موجود ہوٹلز پر آپ کو کھانے پینے کی اشیا مناسب قیمت میں مل جاتی ہے۔ ہماری چائے آئی تو آبشار سے بہتے ٹھنڈے پانی کی ندی سے لطف لیتے ہوئے ہم نے چائے کی چسکیاں لیں۔ منٹھوکھا کو خیرباد کہنے کو دل تو نہیں چاہ رہا تھا لیکن ہمیں اپنی اگلی منزل خموش آبشار کے لیے بھی روانہ ہونا تھا اس لیے کچھ وقت یہاں ٹھہر کر اپنی ٹریول ڈائری میں یہاں کی یادیں قید کرکے ہم نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔

خموش آبشار پہنچنے کے لیے منٹھوکھا سے 51 کلومیٹر کا سفر طے کرنا تھا۔ ابھی سفر میں کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ ہمیں ’خموش آبشار پر خوش آمدید‘ کا بورڈ لگا نظر آیا جسے دیکھ کر خوشی ہوئی لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ اس بورڈ کے بعد بھی گھنٹوں سفر طے کرنا ہے۔ ایک تو یہاں کا راستہ پتھریلا تھا جبکہ ہماری موٹرسائیکل تھی سی ڈی 70۔ خیر بہت مشکلات کے بعد ہم آہستہ آہستہ سفر کرکے بلآخر خموش پہنچ گئے۔

ہلکے زرد رنگ کے پہاڑوں کے درمیان تیز آواز سے بہتا پانی ہر شخص کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا رہا تھا۔ نظارہ ایسا کہ دیکھنے والے کو گویا کچھ لمحوں کے لیے اپنی آغوش میں لے لے۔ اس آبشار کی اونچائی 180 فٹ سے بھی زائد بتائی جاتی ہے۔ اس آبشار کو پہلے تو اتنی پذیرائی نہیں ملی تھی لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا رہا، کچھ مقامی افراد نے اس کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالیں تو یوں لوگوں کو اس کے بارے میں علم ہوا اور اب اکثر سیاح جو منٹھوکھا آبشار جاتے ہیں، وہ وقت نکال کر خموش آبشار کی سیر کو بھی لازمی جاتے ہیں۔

ایک اور اہم بات، خموش قدرتی آبشار ہے جبکہ منٹھوکھا آبشار مصنوعی طور پر بنائی گئی ہے۔ خموش آبشار کے پاس انتظامیہ کی جانب سے کیمپس لگانے کا انتظام بھی موجود ہوتا ہے۔ اگر آپ وہاں کیمپ لگا کر قیام کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔

مقامی لوگوں کی مہمان نوازی کی ہم نے صرف باتیں سنی تھیں لیکن ہم نے اس کا حقیقی نظارہ یہاں آکر کیا۔ حسین مناظر کی تصاویر بنا کر اور گھومنے پھرنے کے بعد تھکن دور کرنے کے لیے ہم ایک جانب بیٹھ گئے، ہمیں بیٹھا دیکھ کر ایک مقامی شخص ہمارے پاس آیا جن کا نام علی تھا۔ علی سے کچھ دیر بات چیت کرنے کے بعد انہوں نے ہمیں اپنے گھر کھانے کی دعوت دی۔ ہم نے وقت کی کمی کا عذر پیش کرکے انہیں بار بار منع کیا لیکن وہ نہیں مانے اور ہمیں زبردستی اپنے گھر لے گئے جہاں انہوں نے بہترین ثقافتی انداز میں ہماری مہمان نوازی کی۔

ہم نے چونکہ وقت کی کمی کا شکوہ کیا تھا اس لیے کم وقت میں جو بہترین انتظام ہوسکتا تھا، انہوں نے ہمیں پیش کردیا۔ انہوں نے ہمیں نمکین چائے پیوچا (جس کا ذکر میں پہلی قسط میں کرچکا ہوں) پیش کی جس کے ساتھ نمکین کلچہ اور خمبیر (موٹی روٹی کی ایک قسم)، خوبانی، بادام اور سوکھا شہتوت پلیٹ پر رکھ کر ثقافتی انداز میں پیش کیا۔ ہم نے بےموقع دعوت کے مزے لیے۔ طعام کے بعد علی نے ہمیں اپنے علاقے کے بارے میں بتایا کہ یہاں سیاحت کے لیے بہت سے دیگر مقامات ہیں لیکن یہ گم نام ہیں اور انہیں دنیا کے سامنے لانے کے لیے کوششیں کرنی چاہیئں۔

ہم نے ان سے اگلی دفعہ ان مقامات کو دیکھنے کا وعدہ کیا اور ان سے رخصت طلب کی جس پر وہ ہمیں دوبارہ اسی مقام تک چھوڑنے آئے جہاں سے ہمیں لے کر گئے تھے۔ کسی جان پہچان کے بغیر اتنی مہمان نوازی دکھا کر انہوں نے ہمارا دل جیت لیا۔ ہم نے ان کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا اور کراچی آنے کی دعوت دے کر ایک دوسرے کو رابطہ نمبر دیا اور پھر واپسی کے لیے روانہ ہوئے۔

ابھی نصف سفر ہی طے کیا تھا کہ ہماری موٹر سائیکل اچانک ایک مقام پر بند ہوگئی اور پھر دوبارہ اسٹارٹ ہی نہیں ہوئی۔ کافی کوششوں کے بعد بھی فائدہ حاصل نہ ہوسکا۔ چونکہ آسمان سیاہ ہوچکا تھا تو اندھیرے میں کچھ نظر بھی نہیں آرہا تھا کیونکہ شہر کی طرح یہاں سڑکوں پر لائٹنگ نہیں ہوتیں بلکہ متعدد گاؤں تو ایسے ہیں جہاں بجلی ہی نہیں ہوتی۔

اندھیرے میں ہم پیدل چل رہے تھے اور ساتھ ساتھ بائیک بھی گھسیٹ رہے تھے کہ تھوڑا آگے جاکر ایک ویگو گاڑی آتی دکھائی دی۔ انہوں نے گاڑی روک کر ہم سے پوچھا تو ہم نے انہیں بائیک کا مسئلہ بتایا۔ وہ بھی اسکردو شہر کی جانب ہی جارہے تھے تو انہوں ہمارے ساتھ مل کر بائیک اٹھا کر گاڑی کے پیچھے رکھوائی، ہم ان کی گاڑی میں سوار ہوکر اسکردو شہر کی جانب روانہ ہوگئے۔

اللہ اللہ کرکے ہم اسکردو شہر پہنچے اور ویگو گاڑی والا مہربان شخص ہمیں وہاں اتار کر آگے چل پڑا۔

ہمیں اپنی رہائش گاہ پہنچنا تھا تو رات کے گہرے سائے میں ہم پیدل پیدل ہی اپنی رہائش گاہ پہنچے اس یادگار سفر کے بعد ہماری ہمت تو نہیں تھی کہ اگلے روز اپنے طے کردہ پلان پر عمل کریں۔ لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم ایک دن کا وقفہ لے کر پھر کھرپوچو فورٹ، نانگ ژھوق ( آرگینک ولیج) اور چھونک گاؤں کی سیر کو جائیں گے۔

کھرپوچو پہاڑی کے اوپر ایک قلعہ ہے جہاں پر پہاڑوں پر چڑھ پر پیدل جانا پڑتا ہے اور نانگ ژھوق ( آرگینک ولیج) میں بھی بہ ذریعہ گاڑی جانے کا کوئی راستہ نہیں۔ وہاں یا تو خطرناک پہاڑی راستوں سے پیدل یا پھر دریائے سندھ سے بہ ذریعہ کشتی جانا پڑتا ہے۔ یہاں کے دلچسپ اور پُرخطر سفر کا ذکر اگلی قسط میں کروں گا۔

منتظر ایوب

لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر بھی ہیں۔ انہیں ٹوئٹر اور انسٹاگرام imuntazirayub@ پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔