نقطہ نظر

بجٹ تقریر سے قبل وہ تین اہم معاشی پہلو جن پر سب کی نظر ہوگی

سنگین معاشی بحران کے پیش نظر حالیہ بجٹ اس بات پر زیادہ مرکوز ہوگا کہ خودمختار حکومتِ پاکستان اپنے مالی معاملات کو کیسے سنبھالتی ہے۔

بجٹ کا مہینہ آچکا ہے اور گزشتہ سالوں میں پیش کیے جانے والے میزانیوں کی طرح، اس بار بھی پھر وہی پرانے نعروں کی گونج سنائی دے گی۔ حکومت یہ دعوے کرے گی کہ یہ میزانیہ کس طرح عوام کے مفاد میں ہے جبکہ حزب اختلاف احتجاج کرے گی کہ حکومت بجٹ کی صورت میں عام شہریوں کی کمر توڑ رہی ہے۔

میڈیا بجٹ کے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالے گا اور یہ ممکنہ طور پر گزشتہ سالوں کی نسبت عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط پر اپنی توجہ زیادہ مرکوز رکھے گا۔

پاکستان جس اقتصادی بحران کا شکار ہے اور جس طرح اسے کثیرجہتی اور دو طرفہ قرض دہندگان کی حمایت کی ضرورت ہے، اس کے پیش نظر حالیہ بجٹ اس بات پر زیادہ مرکوز ہوگا کہ خود مختار حکومتِ پاکستان اپنے مالی معاملات کو کیسے سنبھالتی ہے۔

یہی وجہ ہے بجٹ پیش ہونے سے چند گھنٹے قبل، ہمیں ان تین اہم عناصر کی جانب خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

ٹیکس وصولی کے اہداف اور طریقہ کار

ہم سب واقف ہیں کہ جب بھی فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ریکارڈ توڑ ٹیکس وصولی کرتا ہے تو وہ کیک کاٹ کر خوشی منانا کس قدر پسند کرتا ہے۔ ایک بار پھر ممکنہ طور پر حکومت ریکارڈ توڑ ٹیکس وصولی کے ہدف کا اعلان کرنے جارہی ہے جسے وہ معاشی استحکام کو فروغ دینے کے اپنے عزم کے ثبوت کے طور پر پیش کرے گی۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ حکومت نے مالی سال 20-2019ء کے 42 کھرب روپے کے مقابلے میں مالی سال 23-2022ء میں 72 کھرب روپے کا ٹیکس ریونیو جمع کیا۔ بہ ظاہر تو یہ 71 فیصد کا اضافہ ہے اور اس پر کیک کاٹنے بھی چاہئیں۔ لیکن حقیقی معنوں میں جس طرح کنزیومر پرائس انڈیکس میں 80 فیصد کا اضافہ ہوا وہ ظاہر کرتا ہے کہ ٹیکس وصولی میں کمی واقع ہوئی ہے۔

بجٹ تقاریر کا ایک اور اہم عنصر یہ بھی ہوتا ہے کہ موجودہ ٹیکس ڈھانچہ کس طرح کارگر نہیں رہا۔ میں یہ باتیں اس وقت سے سن رہا ہوں جب شوکت عزیز (میری یادداشت یہیں تک محدود ہے) نے دہائیوں پہلے کہا تھا، ’ہر شہری کو اپنی آمدنی کا کچھ حصہ ادا کرکے گورننس میں حصہ لینا چاہیے‘۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب بھی اپنی بجٹ تقریر میں ایسا ہی کوئی بیان دیں گے لیکن جیسا کہا جاتا ہے اصل باریکیاں اس وقت سامنے آتی ہیں جب ہم تفصیلات میں جاتے ہیں۔

تو جب ہم ٹیکس وصولی کے ہدف کو دیکھتے ہیں تو ہمیں دو چیزوں کے حوالے سے احتیاط سے کام لینا چاہیے، ایک یہ کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں ٹیکس ریونیو میں حقیقی شرح نمو کیا رہی؟ (اس میں افراط زر کی شرح کو شامل نہیں کیا جائے) وہ کیا طریقہ کار ہیں جن کے ذریعے ٹیکس وصولی کا ہدف پورا کیا جاسکتا ہے؟

اس بات کا امکان موجود ہے کہ حکومت ٹیکس وصولی کے طے کردہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے مساوی بنیادوں پر سب کے لیے ٹیکس میں اضافہ کرے جس سے ان لوگوں پر بوجھ میں مزید اضافہ ہوگا جوکہ پہلے ہی باقاعدگی سے ٹیکس ادا کررہے ہیں جیسے تنخواہ دار طبقہ اور کاروباری حضرات وغیرہ۔ اگر ٹیکس وصولی میں اضافے کے لیے یہ طریقہ اپنایا جاتا ہے تو حکومت کو یہ پتا ہونا چاہیے کہ بیان بازی کے باوجود حکومت ٹیکس ادائیگی کے دھارے میں ان لوگوں کو شامل ہونے پر مجبور نہیں کرسکتی جو پہلے ہی ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔

نتیجتاً ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب (معیشت کے حجم کے مقابلے میں قوم کا مجموعی ٹیکس ریونیو) میں بہ مشکل ہی تبدیلی آئے گی اور یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں اسٹیٹس کو کی پالیسیز پر یوں ہی عمل پیرا رہیں گی۔ اور ہم یہ بھی یاد کرتے چلیں کہ یہی وہ اسٹیٹس کو کی پالیسیز ہیں جن کی بدولت آج پاکستان بدترین معاشی بحران کا سامنا کررہا ہے۔

قرض اور سود کی ادائیگیاں

حکومت کی جانب سے مالی سال 23-2022ء میں مجموعی ٹیکس ریونیو تقریباً 72 کھرب رہا، اس میں سے 52 کھرب روپے قرض کی ادائیگی میں خرچ ہوئے، جس کا مطلب ہے کہ بقیہ 27 فیصد دیگر شعبہ جات بشمول دفاع، پینشنز اور ترقیاتی پروجیکٹس کے لیے بچے۔

یہی وجہ ہے کہ آئندہ مالی سال کے لیے قرضوں اور سود کی ادائیگیوں کا ہدف انتہائی اہم ہے اور یہ بھی اہم ہے کہ اس کا موازنہ حکومت کے ٹیکس محصولات سے کیا جائے۔ ملک کے تشویش ناک مالی حالات اور ضروری اخراجات کے لیے قرضوں پر اس کے انحصار کو مدنظر رکھا جائے تو یہ انتہائی اہم ہے کہ آئندہ مالی سال کے لیے حکومت قرض ادائیگی کے حوالے سے کیا اہداف طے کرتی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت قرض ادائیگی میں جتنا سود ادا کرے گی، اس سے وزارتِ خرانہ کو مستقبل میں مہنگائی اور شرح سود کا بھی تعین کرنے میں مدد ملے گی۔

اگر آپ عام شہری ہیں تو یہ قرض اور سود کی ادائیگی دونوں آپ کے لیے اہم ہیں۔ شرح سود سے پتا چلتا ہے کہ ملک کو آگے بڑھنے کے لیے کتنے سرمایہ کی ضرورت ہے جس کے ہر طرح کی شرحِ نمو، کاروباری سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع پر اثرات مرتب ہوں گے۔ مہنگائی کے تخمینے عام شہریوں کے لیے اہم ہوتے ہیں کیونکہ وہ مستقبل میں اس کے زیرِاثر آئیں گے۔ اس طرح انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ سال بھر اپنے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے انہیں کس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور ان کی تنخواہوں میں کتنا اضافہ ہونا چاہیے۔

نجکاری کے اہداف

گزشتہ چند ماہ میں نجکاری کی اشد ضرورت کے حوالے سے بہت کچھ کہا جاچکا ہے۔ حکومت پی آئی اے کی نجکاری کے لیے شدید دباؤ ڈال رہی ہے اور آئی ایم ایف جیسے دیگر مالیاتی ادارے بھی شہباز شریف کی حکومت کو ترغیب دے رہے ہیں کہ وہ سرکاری اداروں کی نجکاری کریں۔

نجکاری کے حوالے سے حکومتی اہداف بھی بجٹ تقریر میں اہم ہوں گے جس سے دو اہم عناصر کی جانب اشارہ ملے گا۔ سب سے پہلے یہ اندازہ ہوگا کہ حکومت قومی اثاثوں کو آف لوڈ کرنے کے حوالے سے کتنی سنجیدہ ہے اور دوسرا عنصر یہ ہوگا کہ ہمیں یہ اندازہ ہوگا کہ سرکاری ادارے فروخت کرنے سے حکومت ریونیو کی مد میں کیا حاصل کرتی ہے؟

تاہم یہ اہداف گمراہ کُن بھی ہوسکتے ہیں جیسا کہ ہم نے ماضی میں دیکھا۔ مالی سال 23-2022ء میں نجکاری کی مد میں 96 ارب روپے کے حصول کا ہدف طے کیا گیا تھا لیکن وہ حقیقت میں محض ایک ارب 30 کروڑ روپے ہی کما پائے جوکہ طے کردہ ہدف کا ایک عشاریہ 4 فیصد ہے۔

حکومت کی ساکھ کو لاحق چیلنجز کو مدنظر رکھیں بالخصوص جب بات نجکاری کی آتی ہے تو یہ حکومت کی سنجیدگی کو ظاہر کرنے میں اہم ثابت ہوگا۔ اس حوالے سے وزیرخزانہ اگر اہم ہدف طے کرتے ہیں تو یہ اشارہ ہوگا کہ حکومت معاشی اصلاحات لانے کے لیے کس حد تک مضبوط ارادے رکھتی ہے۔

ملک کیسے ان اخراجات کی ادائیگی کرے گا؟

مختصر یہ کہ بجٹ کے اعلان کے وقت ہونے والے شور وغل کے درمیان جو چیز اہم ہوگی وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مالی پائیداری ہوگی۔ اس لیے بجٹ کے ڈرامے کو نظر انداز کرکے بہتر یہ ہوگا کہ ہم معاشی اشاریوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔

بجٹ اور اس کی ساکھ تعین کرے گی کہ کتنی تیزی سے آئی ایم ایف پروگرام میں پیش رفت ہوتی ہے۔ بجٹ جو توقعات پر پورا نہیں اترتا وہ میکرواکنامک استحکام کے حوالے سے بے یقینی پیدا کرتا ہے۔ اس حکومت کی نوعیت اور ساخت کو دیکھیں تو بے یقینی پیدا ہونے کا امکان موجود نہیں۔

تاہم آئی ایم ایف کو خوش رکھنے کے لیے سیاسی سرمائے کی ضرورت ہوگی اور پاکستان کے وسیع تر سیاسی منظرنامے کو نظر میں رکھیں تو بجٹ سے توجہ جلد ہی سیاست کی جانب مبذول ہوجائے گی کیونکہ حکومت اپنے طے کردہ اہداف کو پورا کرنا چاہتی ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عذیر ایم یونس

لکھاری امریکی انسٹی ٹیوٹ برائے امن کے سینیئر فیلو اور پاکستانومی نامی پوڈکاسٹ کے میزبان ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔