جب جج نے خود کیس سننے سے معذرت کرلی تو کیسے مقدمہ واپس بھیجا جاسکتا ہے؟ عدالت
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدت نکاح کیس کا فیصلہ سیشن جج شاہ ر خ ارجمند کو واپس بھیجنے کی سابق وزیر اعظم عمران خان کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کردی، سماعت کے دوران جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ جب جج نے خود کیس سننے سے معذرت کرلی تو کیسے کیس واپس بھیجا جاسکتا ہے؟
ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کی، درخواست گزار عمران خان کی جانب سے سلمان اکرم راجا، سلمان صفدر عثمان ریاض گل و دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ سیشن جج شاہ رخ ارجمند کے کسی فیصلے کو کہیں پر چیلنج نہیں کیا گیا، جب تک کہیں پر چیلنج نہ ہو یا جوڈیشل آرڈر نہ ہو تو کیس منتقل نہیں کیا جاسکتا، کیس میں دلائل مکمل ہوگئے تھے اور 29 مئی کو فیصلہ سنانا تھا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہتے ہیں کہ یا تو کیس کو واپس سیشن جج شاہ رخ ارجمند کی عدالت بھیج دیں یا ہائی کورٹ سن لے؟ وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ کیس یا تو سیشن جج ہی سن لیں اور یا ہائی کورٹ مگر ایڈیشنل سیشن جج کیسے سن سکتا ہے؟
اس پر وکیل سلمان اکرم راجنےکا مختلف قوانین کے حوالے دیے۔
انہوں نے بتایا کہ کریمنل کیسز میں رولز میں 4 گراؤنڈز موجود ہیں جو کہ یہاں ایک گراؤنڈ کو بھی لنک نہیں کررہا، اپیل اختتام کو پہنچ چکا تھا ، 29 مئی کو فیصلہ آنا تھا، 23 مئی کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا اور 29 مئی کی تاریخ فیصلہ سنانے کے لیے مقرر تھی، تاہم جس دن فیصلہ آنا تھا اس دن ہی جج پر کمرہ عدالت میں زبانی عدم اعتماد کیا گیا، 20 اپریل کو عدالت پر عدم اعتماد کی درخواست دائر کی گئی تھی جو خارج ہوگئی تھی۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جب ایک بار عدالت نے عدم اعتماد کی درخواست خارج کردی تو پھر دوبارہ اعتراض کیسے ممکن ہے؟ روزانہ کہ بنیاد پر مدعی مقدمہ نے کیس میں تاخیری حربے استعمال کیے جو کہ عدالتی آرڈر کا حصہ ہے، دوبارہ زبانی عدم اعتماد پر سیشن جج نے ہائی کورٹ رولز کے تحت چیف جسٹس کو خط لکھا، سیشن جج کیس کو ایڈیشنل سیشن جج کے پاس لگوا سکتا ہے، سیشن جج کی بجائے ایڈیشنل سیشن جج کے پاس کیس نہیں لگایا جاسکتا ہے، ہائی کورٹ کو یا تو کیس سیشن کورٹ ہی بیجھنا ہوتا ہے یا خود سننا پڑتا ہے۔
عدالت نے دریافت کیا کہ سلمان صاحب جب جج نے خود کیس سننے سے معذرت کرلی تو کیسے کیس واپس بھیجا جاسکتا ہے؟ وکیل نے بتایا کہ جج پر اعتماد ہے، ان کو پتا ہے کہ وہ کسی پریشر میں نہیں ہے اور یہ سب عدالتی آرڈر کا حصہ ہے۔
اس موقع پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سیشن جج شاہ رخ ارجمند کی تعریف کی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم کیس کو کسی دوسرے جج کو بیان (narration) کے ساتھ بھیج دیں؟ وکیل نے بتایا کہ سیشن جج شاہ رخ ارجمند کیس کا فیصلہ کرنا چاہتے تھے مگر ان پر الزامات لگائے گئے، کیس سیشن جج مشرق نے سنا اگر واپس بھیجنا ہے تو سیشن جج مگرب کو جانا چاہیے، تاہم ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکہ کو کیس منتقل کردیا گیا ، ایڈیشنل سیشن جج کو کیس منتقل کردیا گیا مگر کسی ٹائم فریم کے بغیر، تین ماہ سے تاخیری حربوں کا استعمال کیا جارہا ہے۔
بعد ازاں عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکا پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ایک طریقہ سیشن جج شاہ رخ ارجمند کو واپسی کا ہے اور دوسرا ہائی کورٹ کو خود سننے کا ہے، غیر شرعی نکاح کیس کا ٹرائل کتنے عرصے میں مکمل ہوا تھا؟ وکیل نے بتایا کہ دو سے تین دنوں میں ٹرائل کو مکمل کرلیا گیا تھا۔
عدالت نے دریافت کیا کہ غیر شرعی نکاح کیس میں چارج فریم کب ہوا تھا؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ ٹرائل کورٹ نے 16 جنوری 2024 کو چارج فریم کیا تھا، اس کیس میں بھی ہمیں حق دفاع نہیں دیا گیا اور نہ ہی گواہان کو پیش کرنے دیا، 2 فروری کو رات گیارہ بجے فیصلہ محفوظ کرلیا گیا اور اگلے دن فیصلہ سنایا گیا۔
اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ چلیں میں اس کیس پر کل کے لیے نوٹسز جاری کردیتا ہوں۔
بعد ازاں عدالت نے عدت نکاح کیس کی منتقلی کے خلاف درخواست پر فریقین کو کل کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ دو روز قبل عمران خان نے عدت نکاح کیس کو دوسری عدالت منتقل کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔
29 مئی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت میں نکاح کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر جج شاہ رخ ارجمند نے کیس سننے سے معذرت کرتے ہوئے رجسٹرار آفس کو مقدمہ دوسری عدالت منتقل کرنے کا خط لکھ دیا تھا۔
خاور مانیکا نے سیشن جج سے مکالمہ کیا تھا کہ ہمارا کیس کسی اور عدالت میں ٹرانسفر کر دیں، سیشن جج شاہ رخ ارجمند نے ریمارکس دیے کہ عدم اعتماد کی درخواست پہلے بھی خارج ہو چکی ہے۔
اس پر خاور مانیکا نے جج سے کہا کہ میں آپ سے فیصلہ نہیں کروانا چاہتا، جج نے دریافت کیا کہ اس کی وجہ کیا ہے؟
خاورمانیکا نے بتایا کہ مجھے نہیں معلوم مگر بانی پی ٹی آئی نے پچھلی عدالتوں میں بھی ایسا ہی کیا، سیشن جج شاہ رخ ارجمند نے ریمارکس دیے کہ ایک بات چیت ہوتی، کچھ ٹھوس وجہ ہے تو بتائیں؟
خاور مانیکا نے کمرہ عدالت میں پی ٹی آئی کارکنان کی نقل اتارتے ہوئے کہا کہ جج بیٹھے ہوئے ہیں اور پی ٹی آئی والے ناچ رہے۔
3 جون کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف عدت نکاح کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواست منظور کرلی تھی۔
پسِ منظر
واضح رہے کہ 25 نومبر کو اسلام آباد کے سول جج قدرت کی عدالت میں پیش ہو کر بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف دوران عدت نکاح و ناجائز تعلقات کا کیس دائر کیا تھا، درخواست سیکشن 494/34، B-496 ودیگر دفعات کے تحت دائر کی گئی۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ میراتعلق پاک پتن کی مانیکا فیملی سے ہے، بشریٰ بی بی سے شادی 1989 میں ہوئی تھی، جو اس وقت پر پُرسکون اور اچھی طرح چلتی رہی جب تک عمران خان نے بشریٰ بی بی کی ہمشیرہ کے ذریعے اسلام آباد دھرنے کے دوران مداخلت نہیں کی، جو متحدہ عرب امارات میں رہائش پذیر اور درخواست گزار کو یقین ہے کہ اس کے یہودی لابی کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں۔
خاور مانیکا نے بتایا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی شکایت کنندہ کے گھر میں پیری مریدی کی آڑ میں داخل ہوئے اور غیر موجودگی میں بھی اکثر گھر آنے لگے، وہ کئی گھنٹوں تک گھر میں رہتے جو غیر اخلاقی بلکہ اسلامی معاشرے کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ازدواجی زندگی میں بھی گھسنا شروع ہوگئے، حالانکہ اسے تنبیہ کی اور غیر مناسب انداز میں گھر کے احاطے سے بھی نکالا۔
خاور مانیکا نے درخواست میں بتایا تھا کہ ایک دن جب اچانک وہ اپنے گھر گئے تو دیکھا کہ زلفی بخاری ان کے بیڈ روم میں اکیلے تھے، وہ بھی عمران خان کے ہمراہ اکثر آیا کرتے تھے۔
انہوں نے درخواست میں بتایا تھا کہ بشریٰ بی بی نے میری اجازت کے بغیر بنی گالا جانا شروع کر دیا، حالانکہ زبردستی روکنے کی کوشش بھی کی اس دوران سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
مزید لکھا تھا کہ بشریٰ بی بی کے پاس مختلف موبائل فونز اور سم کارڈز تھے، جو چیئرمین پی ٹی آئی کی ہدایت پر فرح گوگی نے دیے تھے۔
خاور مانیکا نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ نام نہاد نکاح سے قبل دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ غیر قانونی تعلقات قائم کیے، یہ حقیقت مجھے ملازم لطیف نے بتائی۔
درخواست میں مزید بتایا تھا کہ فیملی کی خاطر صورتحال کو بہتر کرنے کی کوشش کی لیکن یہ سب ضائع گئیں، اور شکایت کنندہ نے 14 نومبر 2017 کو طلاق دے دی۔
خاور مانیکا کی درخواست کے مطابق دوران عدت بشریٰ بی بی نے عمران خان کے ساتھ یکم جنوری 2018 کو نکاح کر لیا، یہ نکاح غیر قانونی اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
مزید لکھا تھا کہ دوران عدت نکاح کی حقیقت منظر عام پر آنے کے بعد دونوں نے مفتی سعید کے ذریعے فروری 2018 میں دوبارہ نکاح کر لیا، لہٰذا یہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 496/ 496 بی کے تحت سنگین جرم ہے، دونوں شادی سے پہلے ہی فرار ہوگئے تھے۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو طلب کیا جائے اور انہیں آئین اور قانون کے تحت سخت سزا دی جائے۔
28 نومبر کو ہونے والی سماعت میں نکاح خواں مفتی سعید اور عون چوہدری نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا۔
5 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں خاور مانیکا کے گھریلو ملازم اور کیس کے گواہ محمد لطیف نے بیان قلمبند کرایا تھا۔
11 دسمبر کو عدالت نے غیر شرعی نکاح کیس کو قابلِ سماعت قرار دے دیا تھا۔
2 جنوری 2024 کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے غیر شرعی نکاح کیس میں فرد جرم عائد کرنے کے لیے 10 جنوری کی تاریخ مقرر کی۔
10 جنوری اور پھر 11 جنوری کو بھی فردِ جرم عائد نہ ہوسکی تھی جس کے بعد عدالت نے سماعت ملتوی کردی تھی۔
15 جنوری کو بشریٰ بی بی اور 18 جنوری کو عمران خان نے غیرشرعی نکاح کیس کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
تاہم 16 جنوری کو غیر شرعی نکاح کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی پر فردِ جرم عائد کردی گئی تھی۔
31 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی دوران عدت نکاح کیس خارج کرنے کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے دورانِ عدت نکاح کیس خارج کرنے کے لیے بانی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
2 فروری کو عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف غیرشرعی نکاح کیس کا فیصلہ 14 گھنٹے طویل سماعت کے بعد محفوظ کر لیا گیا تھا۔
3 فروری کو سابق وزیراعظم و بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو غیر شرعی نکاح کیس میں 7، 7 سال قید کی سزا سنادی گئی تھی۔