’احمد فرہاد جبری گمشدہ قرار،‘ بازیابی کی درخواست نمٹانے کا تحریری حکم نامہ جاری
اسلام آباد ہائی کورٹ نے شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کی پٹیشن نمٹانے کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا جس کہا گیا ہے کہ شاعر فرہاد علی کو جبری لاپتا/ گمشدہ قرار دیا جاتا ہے تا وقت کہ وہ اپنے گھر نا پہنچ جائیں۔
حکم نامے کے مطابق احمد فرہاد تاحال اپنے گھر نہیں پہنچ سکے جو کہ 15 مئی سے جبری طور پر لاپتا ہیں، دوران سماعت اسلام آباد پولیس، اٹارنی جنرل اور وزارت قانون کی مداخلت اور کوششوں سے لاپتا شخص کے حوالے سے عدالت کو بتایا گیا کہ وہ تھانہ دیر کوٹ میں گرفتار ہیں اور بعد ازاں وہ مقدمہ نمبر 205/24 میں پولیس اسٹیشن صدر، مظفر آباد میں بھی مطلوب اور گرفتار ہیں۔
حکم نامے میں بتایا گیا ہے کہ ان حالات کے پیش نظر مغوی/ لاپتا شخص کو عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکا جبکہ تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مغوی کو جبری طور پر لاپتا کیا گیا ہے اور ریاستی ادارے اپنی مکمل کوشش کے باوجود انہیں بازیاب کروانے میں ناکام رہے اور بالاخر جبری کمشدگی کا سفر جو 15 مئی کو تھانہ لوہی بھیر کی حدود سے شروع ہوا اور 29 مئی تھانی دیر کوٹ آزاد کشمیر کی حدود میں مضحکہ خیز طور پر قانونی اختیار میں داخل ہوگیا۔
حکم نامے کے مطابق تفتیشی افسر نے بتایا کہ اس وقت وہ عدالتی تحویل میں ہیں لہذا تمام حقائق اور ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے عدالت احمد فرہاد کی گرفتاری جن حالات میں ریکارڈ پر لائی گئی اس کو غیر قانونی عمل قرار دیتی ہے۔
حکم نامے میں مزید کہا کہ اس مقدمے کا ہم پہلو یہ بھی ہے کہ جو شخص تھانہ لوہی بھیر سے گرفتار ہوا اور اس کے جبری لاتا ہونے کے حوالے سے یہ عدالت بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے امر کو آرٹیکل 199 کے تحت دیے گئے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے عدالتی دائرہ اختیار میں دیکھتی ہے اور اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لاپتا کو کس علاقے، سوبے سے لاتا/ بر آمدم کیا گیا ہے، یا قید میں رکھا گیا ہے کیونکہ عدالت کا اختیار اس امر واقعہ یعنی جبری گمشدگی سے شروع ہوتا ہے اور اس وقت تک قابل عمل رہتا ہے جب تک لاپتا شخص بر آمد نہ ہوجائے اور اس کے بنیادی بحالی حقوق بحال نہ ہوجائیں۔
حکم نامے کے مطابق مزید براں، لا افسر نے بتایا کہ لاپتا شخص فرہاد علی اس وقت آزاد کشمیر کے علاقے میں عدالتی تحویل میں ہیں جبکہ آئین پاکستان اور اازاد کشمیر کے آئین 1974 کے تحت آزاد کشمیر میں رہنے والے باشندگان اور پاکستانی شہریوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنا تمام اداروں کی قانونی ذمہ داری ہے۔
ان حالات کے پیش نظر عدالت رٹ پٹیشن کو مندرجہ ذیل احکامات کے ساتھ نمٹاتی ہے:
شاعر فرہاد علی کو جبری لاپتا/ گمشدہ قرار دیا جاتا ہے تا وقت کہ وہ اپنے گھر نا پہنچ جائیں۔
فرہاد علی جب اپنے گھر پہنچے تو تفتیشی افسر قانونی طور پر پابند ہے کہ وہ ان کا 164 کا بیان ریکارڈ کریں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت تمام جبری گمشدگی کے مقدمات کو یکجا کر کے بڑے بینچ کے سامنے تجویز کرنے سے متعلق عدالت رجسٹرار آفس کو حکم دیتی ہے کہ وہ تمام مقدمات کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے پیش کریں تاکہ وہ انتظامی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے بڑی بینچ تشکیل کریں۔
عدالت حکم دیتی ہے کہ رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کریمنل جسٹس کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) آئی ایس آئی، ڈی جی ملٹری انٹیلیجنس، ڈی جی انٹیلیجنس بیورو اور محکمہ انسداد دہشتگردی کے انچارج کو مدعو کرے تاکہ وہ اپنی گزارشات اور سفارشات کرینمل جسٹس کمیٹی میں زیر بحث لائیں اور تمام اداروں بشمول پولیس، وزارت داخلہ، وزارت قانون کے درمیان شہری حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی دائرہ اختیار کے اندر رہ کر جبرل گمشدگی جیسے سنگین مسئلے کا تدارک کیا جاسکے۔
ایسے تمام معاملت جن کا تعلق قومی سلامتی سے ہو ان کو ان کیمرہ سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔
واضح رہے کہ 7 جون کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کی پٹیشن نمٹا دی تھی۔
واضح رہے کہ 4 جون کو آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے شاعر احمد فرہاد کی درخواست ضمانت مسترد کر دی تھی۔
31 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کی درخواست نمٹانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے سماعت 7 جون تک ملتوی کر دی تھی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ احمد فرہاد سے اس کی فیملی کی ملاقات کرا دی گئی ہے، حبس بے جا کی پٹیشن نمٹائی جائے۔
وکیل ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ ہم نے صرف واپسی نہیں مانگی تھی بلکہ یہ بھی مانگا تھا کہ جبری گمشدگی کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی ہو، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس صرف تب ختم ہوگا جب وہ عدالت میں پیش ہوگا۔
واضح رہے کہ 29 مئی کو وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران چند روز سے لاپتا شاعر احمد فرہاد کی گرفتاری ظاہر کردی تھی۔
اٹارنی جنرل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ احمد فرہاد گرفتار اور دھیرکوٹ آزاد کشمیر پولیس کی حراست میں ہیں۔
یاد رہے کہ 16 مئی کو آزاد کشمیر کے صحافی و شاعر فرہاد علی شاہ کو مبینہ طور پر اغوا کر لیا گیا تھا جس کا مقدمہ اسلام آباد کے تھانہ لوہی بھیر میں کیا گیا تھا۔
شاعر فرہاد علی شاہ کی زوجہ سیدہ عروج کی مدعیت میں اغوا کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
مقدمے میں فرہاد علی کی اہلیہ نے موقف اختیار کیا تھا کہ میرے خاوند کو نامعلوم افراد نے سوہان گارڈن سے اغوا کیا اور بغیر وارنٹ ہمارے گھر میں داخل ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ نامعلوم افراد نے ہمارے گھر میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے توڑے اور ڈی وی آر بھی ساتھ لے گیے۔
انہوں نے مزید بتایا تھا کہ نامعلوم افراد میرے خاوند کو اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر لے گیے، میرے خاوند بیمار ہیں اور ان کے لیے ادویات لازم ہیں لہٰذا میرے جاننے کے بارے میں ہمیں معلومات فراہم کی جائے۔