نقطہ نظر

کیا ملک میں شرحِ افراط زر میں نمایاں کمی بلند شرحِ سود کی وجہ سے ہوئی؟

بجٹ میں حکومت ٹیکس اور دیگر مالی معاملات پر کیا اعلان کرتی ہے اسٹیٹ بینک اس سے لاعلم ہے مگر بجٹ میں جو بھی اقدامات لیے جائیں گے اس کا براہ راست اثر ملک میں مہنگائی پر پڑے گا۔

آپ جب یہ تحریر پڑھ رہے ہیں، بنیادی شرح سود کے تعین کے لیے مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اجلاس جاری ہوگا اور متوقع طور پر اسٹاک مارکیٹ کی بندش پر مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اعلامیہ بھی جاری کردیا جائے۔ شرح سود میں کمی کے اثرات کی روشنی میں ماہرین معیشت کی توقع اور صنعت کاروں کا مطالبہ ہے کہ اسٹیٹ بینک فوری طور پر بنیادی شرح سود میں کمی کرے کیونکہ افراطِ زر 38 فیصد سے کم ہوکر 12 فیصد سے بھی نیچے آچکا ہے۔

اس تحریر میں ہم یہ جائزہ لیں گے کہ کیا افراط زر (انفلیشن) جس کے کم ہونے پر بنیادی شرح سود میں کمی کی باتیں کی جارہی ہیں، واقعی بلند شرح سود کی وجہ سے ہی اس میں کمی ہوئی یا پھر انتظامی وجوہات جیسا کہ اشیا خورونوش اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے افراطِ زر کم ہوئی؟

پاکستان میں مئی کا مہینہ صارفین اور پالیسی سازوں کے لیے کچھ حد تک رحمت ثابت ہوا ہے کہ جب قیمتوں میں اضافے کی شرح یعنی افراط زر یا انفلیشن کی شرح 12 فیصد سے کم ہوگئی جوکہ گزشتہ 30 ماہ میں مہنگائی کی کم ترین سطح ہے۔

پاکستان میں گزشتہ تقریباً پانچ سال سے افراط زر یا قیمتوں میں اضافے کی شرح 10 فیصد سے زائد کی سطح پر ہے جبکہ چند ماہ تک افراط زر 38 فیصد کی سطح کو چھونے کے بعد کم ہونا شروع ہوا ہے۔ افراطِ زر میں کمی کے لیے اسٹیٹ بینک نے بنیادی شرح سود کو 22 فیصد کی سطح پر تقریباً ایک سال سے مستحکم رکھا ہوا ہے۔ اس وقت پاکستان میں بنیادی شرح سود 22 فیصد ہے جبکہ ہم نے دیکھا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں بنیادی شرح سود دگنی ہوچکی ہے۔ مئی 2019ء میں یہ 10.7 فیصد تھی جوکہ اب 22 فیصد ہوچکی ہے۔

اس بات کا جائزہ لینے سے قبل کہ افراط زر میں کمی سخت مانیٹری پالیسی کی وجہ سے ہوئی ہے، پہلے افراطِ زر کی صورت حال پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔ کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) افراط زر جوکہ مئی 2023ء میں 38 فیصد تھا مئی 2024ء میں کم ہوکر 11.8 فیصد کی سطح پر آگیا ہے۔ یعنی ایک سال میں 27 فیصد کی نمایاں کمی ہوئی۔

افراط زر میں یہ کمی پالیسی سازوں کے لیے بھی حیران کن ہے کیونکہ خود وفاقی وزارت خزانہ بھی اس کمی کی توقع نہیں کررہے تھے۔ وزارت کے ماہانہ معاشی جائزے میں مئی کے لیے افراط زر 13.5 فیصد سے 14.5 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا جبکہ جون میں افراط زر 12.5 سے 13.5 فیصد کے درمیان رہنے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔

سالانہ منصوبہ بندی کی کمیٹی اینول پلان کوآرڈینیشن کمیٹی (اے پی سی سی) نے آئندہ مالی سال کے لیے افراط زر کا ہدف 12 فیصد طے کیا تھا جبکہ اسٹیٹ بینک کی پیش گوئی ہے کہ افراط زر جون 2025ء تک 5 سے 7 فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔

افراط زر میں کمی کی بڑی وجہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافےکے بجائے 9 سالوں کے بعد کمی کا رجحان ہے۔ گزشتہ 9 برسوں میں پہلی مرتبہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کے بجائے کمی یا تفریط زر دیکھی گئی ہے۔

اشیائے خورنوش کی قیمتوں میں کمی

ملک میں اس وقت مہنگائی میں کمی کی بڑی وجہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ہونے والی نمایاں کمی ہے۔ اس کی وجہ سخت مانیٹری پالیسی نہیں بلکہ حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے انتظامی فیصلوں، زرعی شعبےکی کارکردگی میں بہتری ہے۔ رواں سیزن میں گندم، چاول، گنا، مکئی اور کپاس کی بہترین پیداوار رہی جس نے مارکیٹ میں طلب سے زیادہ اجناس کی دستیابی کو یقینی بنایا۔ اس وقت 100 من گندم کی قیمت 7 ہزار 500 روپے ہے جبکہ جولائی 2023ء میں گندم کی قیمت 13 ہزار روپے تھی۔ یعنی تقریباً ایک سال سے بھی کم عرصے میں گندم کی قیمت میں 5 ہزار 500 روپے کی کمی ہوئی ہے۔

یہ کمی گندم کی نئی مقامی فصل کی بمپر کراپ ہونے کے علاوہ بڑے پیمانے پر گندم کی درآمد کی وجہ سے ہوئی ہے اور اب ذخیرے کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے گندم سستی فروخت ہورہی ہے۔ گندم کی قیمت میں کمی کے اثرات براہ راست آٹے کی قیمت پر بھی پڑے ہیں اور فی کلو گرام آٹے کی قیمت 150 روپے سے کم ہوکر 88 روپے ہوگئی ہے۔ یعنی عام آدمی کو آٹے کی قیمت میں 62 کا نمایاں فائدہ ہوا ہے۔

دوسری جانب چاول کی قیمت میں بھی نمایاں کمی دیکھی جارہی ہے۔ ایک کلوگرام چاول کی قیمت تقریباً 40 سے 50 روپے کم ہوچکی ہے۔ چاول کے برآمد کنندہ رفیق سلمان کا کہنا ہے کہ بیرون ملک چاول کی طلب میں کمی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ملک میں چاول سستا ہوگیا ہے۔

اسی طرح مرغی کی قیمت میں بھی نمایاں کمی دیکھی جارہی ہے۔ مرغی کی قیمت میں کمی کی وجہ مانیٹری پالیسی کے اقدامات نہیں بلکہ انتظامی سطح پر پالیسیوں کی تبدیلی کے پیش نظر قیمتوں میں کمی ہوئی ہے۔ مرغی کی قیمت میں اضافے کے بعد گزشتہ سال ایک کلو گرام مکمل مرغی کی قیمت 750 روپے تک پہنچ گئی تھی جو کہ اب کم ہوکر 500 روپے ہوچکی ہے۔ مرغی کی صنعت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ مرغی کی قیمت میں کمی حکومت کی جانب سے افغانستان اور ایران کو چوزے کی برآمد پر پابندی کے حوالے سے غور و خوص ہے۔ حکومت پنجاب نے چوزے کی بیرون ملک برآمد پر پابندی کا مکتوب وفاق کو ارسال کیا ہے مگر وفاق نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ جیسے ہی یہ خبر مارکیٹ میں آئی مرغی کی قیمت میں کمی ہونا شروع ہوگئی۔

پاکستان میں خوردنی تیل کا انحصار بھی درآمدات پر ہے اور ملائیشیا سے پام آئل بڑے پیمانے پر درآمد ہوتا ہے۔ پام آئل کی قیمت اپریل میں 4 ہزار 477 ڈالرز فی ٹن سے کم ہوکر 3 ہزار 976 ڈالرز فی ٹن ہوچکی ہے، جس کے اثرات ہم نے شرحِ افراط زر پر دیکھے۔

اس کے علاوہ جلد خراب ہوجانے والی غذائی اجناس جیسا کہ ٹماٹر پیاز اور دیگر کی قیمتوں میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے اور یہ سب انتظامی اقدامات کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔

روپے کی قدر میں کمی

روپے کی قدر میں استحکام بھی ملک میں افراط زر میں کمی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ پاکستان میں گندم، خوردنی تیل، دالیں اور ایندھن بڑے پیمانے پر درآمد ہوتا ہے جبکہ بجلی کے کارخانوں میں بھی بعض ادائیگیاں ڈالرز میں ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی روپے کے مقابلے میں ڈالر مہنگا ہوتا ہے تو اس کا براہِ راست اثر شرحِ افراط زر پر پڑتا ہے۔

پاکستان میں ڈالر کی قلت کی وجہ سے ایک بلیک مارکیٹ تشکیل پاگئی تھی جوکہ ڈالر کی قدر میں سٹے بازی کررہی تھی جبکہ یہاں سے ڈالرافغانستان اور ایران اسمگل ہورہا تھا۔

روپے کی قدر کو مستحکم کرنے کے لیے ڈالر کی اسمگلنگ پر ہونے والی سٹے بازی کو روکنے کے لیے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کی سطح پر فیصلہ کیا گیا جس میں مسلح افواج سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ڈالر کی غیر قانونی خرید و فروخت اور بلیک مارکیٹ پر کریک ڈاون کیا۔ ڈالر کی قدر میں تیزی سے کم ہوئی اور وہ 280 روپے کی سطح پر آگیا۔

اس وقت بھی ڈالر اوپن مارکیٹ میں 277 سے 280 روپے کے درمیان ٹریڈ ہورہا ہے جبکہ انٹر بینک میں ایک ڈالر 278 روپے کے آس پاس ٹریڈ ہورہا ہے۔ سخت مانیٹری پالیسی کے بجائے انتظامی سطح پر اقدامات نے روپے کی قدر کو مستحکم کیا ہے۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی

ملک میں ایندھن کی قیمت عالمی منڈی کی قیمتوں پر منحصر ہے۔ روپے کی قدر میں استحکام اور عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کے سستا ہونے کی وجہ سے ایک لیٹر پیٹرول جس کی قیمت 300 روپے تک پہنچ گئی تھی، اب کم ہوچکی ہے اور صرف مئی کے مہینے میں پیٹرول کی قیمت میں 19 روپے سے زائد کی کمی واقع ہوئی جس سے ملک میں ٹرانسپورٹ اخراجات کم ہوئے ہیں اور یہ عمل بھی مانیٹری پالیسی کے ماتحت نہیں ہے۔

صنعتوں پر بلند شرح سود کے اثرات

صنعتوں میں مہنگے مشینری آلات استعمال ہوتے ہیں اور اکثر صنعتیں قرض لے کر یہ آلات اور مشینری کی خریداری کرتی ہیں اور جیسے جیسے وہ ان آلات اور مشینری سے منافع کماتے ہیں ویسے ویسے قرض پر سود اور اصل سرمایہ کی واپسی ممکن ہوتی ہے۔ جب افراط زر کی وجہ سے بنیادی شرح سود میں اضافہ ہوتا ہے تو وہ کاروبار اور صنعت کو چلانے کی لاگت بڑھا دیتا ہے جبکہ صارفین بھی مصنوعات کی خریداری کم کردیتے ہیں۔ بنیادی شرح سود بڑھنے سے پاکستان میں بھی یہی عمل دیکھنے میں آیا کہ صنعتوں نے اپنی پیداوار کو روک دیا۔

پاکستان میں بلند شرح سود کی وجہ سے صنعتی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔ بڑی صنعتوں کی پیداوار کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثر آٹو موبیل صنعت اور اس سے وابستہ فاضل پرزہ جات کی وینڈر صنعت ہوئی۔ موجودہ مالی سال کے 9 ماہ میں آٹوموبیل صنعتوں کی پیداوار میں 38 فیصد تک کی کمی دیکھی گئی ہے جبکہ یہ صنعت گزشتہ تین سال سے مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ ڈالر کی قلت کی وجہ سے چند ماہ تک آٹو موبیل کی صنعت کو درآمدات میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مختلف کمپنیوں نے اپنے پلانٹس کئی ماہ تک بند رکھے تھے۔

بلند شرح سود کی وجہ سے صارفین کی جانب سے گاڑیوں میں سرمایہ کاری کا عمل تقریباً رکا گیا ہے جس سے گاڑیاں نقد پر خریدی اور بیچی جارہی ہیں۔

آٹوموبیل کے ساتھ دیگر صنعتیں جیسے ٹیکسٹائل، موبائل اور ٹی وی مینو فکچرنگ، کیمیکلز، فوڈ، بیوریج اور دیگر صنعتوں کو بھی بلند شرح سود کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان ہوا ہے اور مجموعی طور پر ملک کی صنعتی پیداوار میں کمی ہوئی ہے۔

بنیادی شرح سود میں بڑی کمی ہوسکتی ہے؟

اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اجلاس ایسے وقت میں ہورہا ہے جبکہ چند روز کے بعد وفاقی بجٹ کا اعلان ہونے والا ہے۔ پہلے اس بجٹ کا اعلان جون کے پہلے ہفتے میں کیا جانا تھا مگر حکومتی اتحاد اور دیگر مسائل کی وجہ سے بجٹ کا اعلان مؤخر ہوگیا اور اب متوقع طور بجٹ 12 جون کو پیش کیا جائے گا جبکہ اس سے ٹھیک دو روز قبل اسٹیٹ بینک اپنی مانیٹری پالیسی کا اعلان کررہا ہے۔

بجٹ میں حکومت ٹیکس اور دیگر مالی معاملات پر کیا اعلان کرتی ہے اسٹیٹ بینک اس سے لاعلم ہے۔ مگر یہ بات اہم ہے کہ بجٹ میں جو بھی اقدامات لیے جائیں گے اس کا براہ راست اثر ملک میں مہنگائی پر پڑے گا۔ اس حوالے سے باتیں ہورہی ہیں کہ حکومت اپنا ٹیکس ریونیو بڑھانے کے لیے سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرسکتی ہے جبکہ آئی ایم ایف بھی ہر قسم کی ٹیکس چھوٹ کے خاتمے پر زور دے رہا ہے جس سے حکومت کی ٹیکس وصولی تو بہتر ہوسکتی ہے لیکن اس سے مہنگائی میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔

پاکستان میں مہنگائی پر قابو پانے میں بلند شرح سود سے زیادہ انتظامی معاملات کا دخل نظر آتا ہے۔ اس لیے اسٹیٹ بینک جس کا بنیادی کام ملک میں مہنگائی کو قابو کرنا ہے، اپنی مانیٹری پالیسی کے فیصلے تنہا نہیں کرسکتا ہے۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔