پاکستان

چیف الیکشن کمشنر نے انتخابی پیچیدگیوں کا ذمہ دار اعلیٰ عدلیہ کو ٹھہرا دیا

الیکشن کمیشن نہ تو دارالحکومت کے لیے بنائے گئے ٹریبونل کو خارج کرسکتا ہے اور نہ ہی اس کی کارروائی کو ریگولیٹ کر سکتا ہے، وکیل فیصل چوہدری

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے عام انتخابات 2024 کے عمل کے دوران پیش آنے والی پیچیدگیوں کا بالواسطہ طور پر عدلیہ کو ذمہ دار ٹھہرادیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تین ممبر قومی اسمبلی کی جانب سے ان کے خلاف ٹربیونل کے سامنے زیر التوا درخواستوں کی منتقلی کی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے سکندر سلطان راجا نے کہا کہ وہ اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان اور لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس گئے اور ان سے عدالتی عملے سے بطور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر (ڈی آر اوز) اور ریٹرننگ افسر (آر اوز) فرائض سرانجام نا کروانے کی درخواست کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

یہ ریمارکس اس وقت سامنے آئے جب این اے 46 سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار عامر مسعود مغل کے وکیل کے طور پر الیکشن کمیشن کے 4 رکنی بینچ کے سامنے پیش ہونے والے وکیل فیصل چوہدری نے 8 فروری کے انتخابات کو ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ دھاندلی زدہ انتخابات قرار دیا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ بیوروکریسی کو دو بار 1977 اور 2024 میں انتخابات کرانے کا کام سونپا گیا تھا اور دونوں بار انہوں نے پاکستان کو ناکام بنایا۔

انتخابی ڈیوٹی کے لیے جوڈیشل افسران کی عدم دستیابی کے بارے میں چیف الیکشن کمشنر کے ریمارکس کو بھی بہت سے لوگوں نے اس اعتراف کے طور پر دیکھا کہ بیوروکریسی سے لیے گئے ڈی آر اوز اور آر اوز ڈیلیور کرنے میں ناکام رہے۔

فیصل چوہدری نے دلیل دی کہ الیکشن کمیشن نہ تو دارالحکومت کے لیے بنائے گئے ٹریبونل کو خارج کرسکتا ہے اور نہ ہی اس کی کارروائی کو ریگولیٹ کر سکتا ہے، انہوں نے بینچ کو بتایا کہ آپ ٹربیونل کے حکم پر نظر ثانی یا اپیلٹ اتھارٹی کے طور پر نہیں بیٹھ سکتے۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کمیشن کی طرف سے لیا گیا کوئی بھی فیصلہ ملک بھر سے درخواستوں کو اپنی مبذول کرتے ہوئے قانونی چارہ جوئی کے دروازے کھول دے گا۔

نئے ٹربیونل کی تشکیل کے لیے درخواست گزار کی اپیل کی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے نشاندہی کی کہ درخواست میں ایسی کوئی استدعا نہیں ہے اور دلیل دی کہ الیکشن کمیشن اضافی کارروائی نہیں کرسکتا، ٹربیونل کے سامنے کیس میں مدعا علیہ درخواست گزار نے نہ تو کوئی جواب جمع کرایا اور نہ ہی اس نے الیکشن پٹیشن کے وقت کی پابندی پر کوئی اعتراض اٹھایا۔

فیصل چوہدری نے بتایا کہ ٹربیونل نے درخواست گزار (انجم عقیل خان) کو اپنا جواب جمع کرانے کے لیے اضافی وقت دیا تھا، اس کے باوجود وہ اپنا جواب جمع کرانے میں ناکام رہے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ درخواست بدنیتی کے ساتھ دائر کی گئی ہے تاکہ جواب دہندہ کے جائز مقصد کو نقصان پہنچایا جا سکے۔

انہوں نے استدلال کیا کہ درخواست مبہم، سرسری اور مفروضوں پر مبنی ہے اور اسے قانونی سمجھ کے برعکس تیار کیا گیا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ درخواست گزار نے ٹربیونل کے پریزائیڈنگ افسر کی تضحیک کی ہے۔

وکیل فیصل چوہدی نے بینچ کو بتایا کہ اس ساری مشق کا مقصد قانون کے مطابق انتخابی پٹیشن کا جواب جمع کرانے میں ناکامی کے بعد ٹربیونل کے سامنے کارروائی میں تاخیر کرنا تھا۔

الیکشن ہارنے والے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار ایڈووکیٹ شعیب شاہین نے دلیل دی کہ الیکشن کمیشن کے 4 جون کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا، جہاں سماعت جاری تھی اور فیصلے کا انتظار تھا۔

انہوں نے درخواست گزاروں کی جانب سے پیش کیے گئے تمام دلائل کو غیر متعلقہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹربیونل کی منتقلی کا فیصلہ متعلقہ چیف جسٹس کی مشاورت سے ہی کیا جا سکتا ہے۔

بعد ازاں الیکشن کمیشن نے دلائل سننے کے بعد ٹربیونل منتقلی کیس پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

واضح رہے کہ 6 جون الیکشن کمیشن نے اسلام آباد کے الیکشن ٹربیونل کی تبدیلی سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی تھی۔

واضح رہے کہ 4 جون کو الیکشن کمیشن نے اسلام آباد کےٹربیونل کی تبدیلی سے متعلق مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی درخواستیں قابل سماعت قرار دے دی تھیں۔

یاد رہے کہ 3 جون کو اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی نشستوں کے اعلان کردہ فاتحین نے وفاقی دارالحکومت کے واحد پول ٹربیونل کے سامنے زیر التوا انتخابی درخواستوں کو ’کسی دوسرے ٹریبونل‘ میں منتقل کرنے کی درخواست دائر کردی تھی۔

یہ پیشرفت الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے لیے ایک متنازع آرڈیننس جاری کیے جانے کے بعد سامنے آئی جس کے تحت الیکشن ٹربیونلز کے طور پر ریٹائرڈ ججوں کی تقرری کے لیےالیکشن کمیشن کو اختیار دیا گیا ہے۔

چونکہ اسلام آباد میں واحد ٹربیونل ہے اس لیے مقدمات کو دارالحکومت سے باہر منتقل نہیں کیا جا سکتا۔

این اے 46، این اے 47 اور این اے 48 سے کامیاب قرار دیے گئے امیدوار انجم عقیل خان، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری اور راجا خرم شہزاد نے اپنی درخواستوں میں نہ صرف ان کے خلاف الیکشن پٹیشن کسی دوسرے ٹربیونل منتقل کرنے کا مطالبہ کیا بلکہ ان کی درخواستوں کے حتمی نتائج آنے تک الیکشن ٹریبونل کے سامنے کارروائی روکنے کی بھی استدعا کی ہے۔

قانونی صورت حال یہ ہے کہ اسلام آباد میں ایک ہی الیکشن ٹریبونل ہے اور قانون کے تحت الیکشن کمیشن مقدمات کو اسلام آباد سے باہر کسی ٹربیونل میں منتقل نہیں کر سکتا اور ریٹائرڈ ججوں کو بطور الیکشن ٹربیونل تعینات کرنے کا اختیار دینے والے آرڈیننس کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جا چکا ہے۔

درخواست گزاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انہیں ٹربیونل سے انصاف نہیں ملے گا جہاں ان کے مقدمات زیر التوا ہیں۔

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ منصفانہ ٹرائل کا حق انصاف کا سنگ بنیاد ہے اور اس میں آئین کے آرٹیکل 10 اے کا حوالہ دیا گیا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ انتخابی پٹیشن میں کچھ قانونی خامیاں اور نقائص ہیں جو کہ کافی اہم نوعیت کے ہیں اور انتخابی پٹیشن کو خارج کرنے کی ضرورت ہے۔

تاہم، اس کا کہنا ہے کہ ٹربیونل نے نہ صرف الیکشن پٹیشن کے تمام مدعا علیہان کو طلب کیا بلکہ سماعت کی پہلی ہی تاریخ میں متعلقہ حکام سے الیکشن کا پورا ریکارڈ بھی طلب کرلیا، اس میں کہا گیا ہے کہ انتخابی پٹیشن کا درخواست گزار بد نیتی کے ساتھانہیں قانونی حق سے محروم کرنا چاہتا ہے۔

قائم مقام گورنر پنجاب نے ہتک عزت کا بل منظور کرلیا

ٹی20 ورلڈکپ: سری لنکا کو مسلسل دوسری شکست، بنگلہ دیش 2 وکٹوں سے کامیاب

رہنما تحریک انصاف پر چھریوں سے حملہ، علی امین گنڈاپور عیادت کیلئے پہنچ گئے