سابق وزیراعظم عمران خان کو سیل میں بندکرکے عوام کی تضحیک کی جا رہی ہے، علی محمد خان
پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما، سابق وزیر علی محمد خان نے کہا ہے کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو سیل میں بندکر کے عوام کی تضحیک کی جا رہی ہے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر سید میر غلام مصطفیٰ شاہ کی صدارت میں شروع ہوا،چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی اسپیکر گیلری آئے اور ایوان کی کارروائی دیکھی۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ایوان میں آمد کے موقع پر پارٹی اراکین نے ڈیسک بجا کر استقبال کیا، علی قاسم گیلانی نے بحیثیتِ رکن قومی اسمبلی حلف اٹھایا۔
اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ ایک سابق وزیراعظم صرف ایک شخص نہیں ہوتا، آج سے 80 سال پہلے بھی یہی کہانی تھی۔
علی محمد خان نے کہا کہ کل نواز شریف کو ہتھ کڑیاں پہنائی گئی تھیں، ایوان سے سوال ہے جو یہ سب کر رہے ہیں، ان کی باری کب آئے گی؟ اب پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو سیل میں بند کر کے عوام کی تضحیک کی جا رہی ہے۔
اجلاس کے دوران کراچی میں کے الیکٹرک کی جانب سے طویل لوڈشیڈنگ اور اوور بلنگ پر توجہ دلاؤ نوٹس ایوان میں پیش کیا گیا، پیپلز پارٹی کے رکن نبیل گبول نے کے الیکٹرک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ لیاری میں دو دو دن بجلی بند رہتی ہے، کراچی کربلا بنا ہوا ہے، مسئلہ سول نافرمانی کی طرف جارہا ہے۔
وزیر مملکت خزانہ علی پرویز ملک نے کہا کہ نقصان والے فیڈرز پر 10،10 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے، کے الیکٹرک میں 2109 فیڈرز موجود ہیں، اراکین کو انفرادی طور پر نقصان والے فیڈرز کا ڈیٹا دے دیا جائے گا۔
نبیل گبول نے علی پرویز ملک کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ بل دینے والے اور نہ دینے والوں کو ایک ہی سزا مل رہی ہے، 10 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ثابت ہوئی تو اپنا ستعفی دیں گے، اگر میں غلط ثابت ہوا تو میں استعفیٰ دوں گا۔
پیپلز پارٹی کے رکن مرزا اختیار بیگ نے کہا کہ ہم کسی کو نیٹ میٹرنگ کو ختم نہیں کرنے دیں گے، غریب لوگوں نے اپنی جمع پونجی لگا کر سولر سسٹم لگوایا ہے، سولہ سولہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے۔
وزیر مملکت علی پرویز ملک نے جواب دیا کہ نیٹ میٹرنگ کے سسٹم میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی۔
پیپلز پارٹی کے رکن آغا رفیع اللہ نے کہا کہ ہم کے الیکٹرک کا معاملہ کافی عرصہ سے اسمبلی میں لیکر آرہے ہیں۔
رہنما پیپلز پارٹی شازیہ مری نے کہا کہ سندھ میں 20 20 گھنٹے لوڈشیدنگ ہے، بھاری بھرکم بل آتے ہیں لیکن بجلی نہیں ہے، لوگ گرمی کی شدت سے تڑپ رہے ہیں لیکن کوئی جواب دینے والا نہیں۔
اجلاس میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سرگودھا میں ہمارے لوگ رہا ہوئے، پھر ان کو گرفتار کرلیا گیا، پتا نہیں کون سی اڑن طشتری ہے وہ اٹھا کر لے جاتے ہیں، یہ کون سی جمہوریت ہے جہاں کارکنوں کو اٹھا لیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے ایف آئی اے سے نوٹس آیا ہے، بانی پی ٹی آئی کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر انکوائری شروع ہوئی ہے ، اسٹیٹ تو پارلیمنٹ ہے، یہ کیسے ہمیں لیٹر لکھ سکتے ہیں، ایف آئی اے کے انسپکٹر کو نوٹس بھجوایا گیا، اس طرح کی ہتک ختم ہونی چاہیے، پاکستان کو آگے بڑھنا چاہیے۔
بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کے پاس کوئی سہولت نہیں ہے، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔
خواجہ شیراز نے کہا کہ ہمارا علاقہ ڈاکوؤں کے نرغے میں ہے، ڈیرہ غازی ڈویژن سے ڈاکو لوگوں کو اغوا کررہے ہیں ، جب تک تاوان نہ دیا جائے کچے کے ڈاکو غریب لوگوں کو رہا نہیں کرتے، اس ایوان کے توسط سے اپنے اداروں کو کہنا چاہ رہا ہوں ہماری جان و مال کا تحفظ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف ہم دہشت گردی کا شکار ہیں، 3 مرتبہ چیک پوسٹوں پر حملے ہوئے ہیں، وفاقی وزیر داخلہ سے ذمہ داری واپس لے کر وزیر کھیل بنا دیں، جب وزارت داخلہ سوئی ہوئی ہے پھر ہم کس سے پوچھیں۔
علی قاسم گیلانی نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ جس سیٹ پرمیں بیٹھا ہوں یہ میرے والد کی سیٹ ہے، ملتان کی عوام نے نفرت اور تقسیم کی سیاست کو مسترد کیا۔
علی قاسم گیلانی نے اپنی تقریرمیں جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا، انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو اس بجٹ میں امید دینے کی ضرورت ہے، فلسطین کے مسلمانوں اور غزہ کے بچوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔
سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر نے کہا کہ چمن سمیت دیگر مقامات پر احتجاج جاری ہے،حکومت معاملے کو سنجیدہ نہیں لے رہی، بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، چمن کے لوگوں پرگولیاں، ڈنڈے نہ برساؤ۔
سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ ایک طرف ہمیں ڈائیلاگ کا کہا جاتا ہے، دوسری طرف گرفتاریاں ہورہی ہیں۔
قبل ازیں قومی اسمبلی اجلاس کا 5 نکاتی ایجنڈا جاری کیا گیا تھا، وقفہ سوالات، کے الیکٹرک کی طرف سے لوڈ شیڈنگ کے بارے میں توجہ دلاؤ نوٹس، صدر مملکت کے مشترکہ اجلاس سے خطاب بھی ایجنڈے میں شامل تھا۔
اس کے علاوہ یورپی یونین، برطانیہ کی پی آئی اے پروازوں پرپابندی پر توجہ دلاؤ نوٹس بھی قومی اسمبلی اجلاس کے ایجنڈے میں شامل تھا۔