کاروبار

غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر بجٹ پیش کرنے میں مشکلات

10 جون کو وفاقی کابینہ اور پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کرنے کی توقع تھی لیکن زمینی صورتحال کے پیش نظر یہ مشکل دکھائی دے رہا ہے، ذرائع وزارت خزانہ

وفاقی بجٹ برائے 25-2024 غیر معمولی تعطل کا شکار ہے اور اس میں کئی بنیادی چیزیں ابھی تک مکمل نہیں ہوئی جو اس کو 10 جون کو پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے پر شکوک وشبہات پیدا کررہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) کا اجلاس موجودہ سال کی معاشی صورتحال اور ترقیاتی پروگرام کا جائزہ لینے سمیت اگلے سال کے اقتصادی اور ترقیاتی ایجنڈے کی منظوری کے لیے انتہائی ضروری ہے، لیکن وہ اب تک شیڈول نہیں ہوا، دراصل حکومت نے ابھی تک قومی اقتصادی کونسل کی تشکیل ہی نہیں کی ہے۔

علاوہ ازیں، وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب چین کے 4 روزہ سرکاری دورے پر روانہ ہورہے ہیں اور وہ 8 جون تک اہم مشاورت کے لیے دستیاب نہیں ہوں گے، لہذا این ای سی کا پہلا اجلاس 8 جون کے بعد ہی ممکن ہے، لیکن اس کے لیے این ای سی کی تشکیل کے حوالے سے صوبوں اور صدر مملکت کے ساتھ متعلقہ دستاویزات کو الیکٹرانک ذرائع سے سامنے لایا جائے۔

آئین کے آرٹیکل 156 کے تحت، صدرپاکستان کی جانب سے این ای سی تشکیل دینا ضروری ہے، جس کی سربراہی وزیراعظم بطور چیئرمین کرتے ہیں اور اس میں 4 وزرائے اعلیٰ اور ہر صوبے سے ایک رکن شامل ہوتا ہے جسے متعلقہ وزیراعلیٰ اور دیگر 4 اراکین نامزد کرتے ہیں، اس کے علاوہ اس میں وزیراعظم کی جانب سے نامزد کردہ اہم وفاقی وزرا بھی شامل ہوتے ہیں۔

آرٹیکل 156 کے تحت ’این ای سی ملک کی مجموعی اقتصادی حالت کا جائزہ لے گا، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مالی، تجارتی، سماجی واقتصادی پالیسیوں کے حوالے سے منصوبے بنانے کا مشورہ دے گا، اور اس طرح کے منصوبوں کی تشکیل میں یہ دوسرے عوامل کے ساتھ متوازن ترقی اور علاقائی مساوات کو یقینی بنائے گا، اور بیان کردہ پالیسی کے اصولوں کے دوسرے باب کے دوسرے حصے سے بھی رہنمائی حاصل کرے گا۔

حکام نے تصدیق کی ہے کہ پیر کی رات تک این ای سی کے حوالے سے کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا تھا، دلچسپ بات یہ ہے کہ سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی (اے پی سی سی) نے پیر کو اپنا اجلاس جاری رکھا، حالانکہ پلاننگ کمیشن نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ فورم نے این ای سی کو وفاقی حکومت کے 12 کھرب 21 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کے ساتھ رواں مالی سال کے لیے معاشی شرح نمو کا ہدف 3.6 فیصد رکھنے کی سفارش کی تھی۔

وزیر منصوبہ بندی نظرانداز

حکام نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ پہلی بار پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین جہانزیب خان کی سربراہی میں اے پی سی سی کا اجلاس وزیر منصوبہ بندی کو شیڈول یا ترقی اور میکرو اکنامک انڈیکیٹرز کے بارے میں بتائے بغیر منعقد ہوا۔

چین اور ملائشیا کے دورے پر موجود وفاقی وزیر وطن واپسی پر یہ جان کر حیران رہ گئے کہ انہیں اس بارے میں مکمل نظرانداز کردیا گیا، ذرائع نے بتایا کہ 31 مئی کو اے پی سی سی کا اجلاس بھی غیر معمولی تھا کیونکہ اس میں فنڈز مختص کرنے اور پروجیکٹ کے جائزہ میں کچھ شعبوں کو شامل نہیں کیا گیا، ان شعبوں میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی، وزارت خزانہ، اس کا ترقیاتی پورٹ فولیو اور پانی کا شعبہ شامل ہے۔

اس لیے این ای سی کے اجلاس کے بلائے جانے تک کچھ تبدیلیوں کو رد نہیں کیا جاسکتا، حالانکہ وزارت منصوبہ بندی کے سیاسی سربراہ فی الحال بے بس دکھائی دیتے ہیں، تاہم اصول کے تحت منصوبہ بندی کے وزیر سے اے پی سی سی کی سفارشات کی این ای سی کو پیشکش کی سمری پر دستخط کرنے کی ضرورت تھی۔

مزید برآں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں کی خواہشات پر بھی توجہ نہیں دی گئی، کیونکہ اگلے سال کے لیے ان کے ترقیاتی پورٹ فولیو کو موجودہ سال کی سطح 51،51 ارب پر منجمد کر دیا گیا ہے، دونوں قیادتیں پیر کے روز وزرائے خزانہ اور منصوبہ بندی سے ملاقاتوں میں مصروف رہیں۔

بجٹ حکمت عملی پیپر

یہ بھی غیر معمولی بات ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ حکمت عملی پیپر (بی ایس پی) کو ابھی تک پارلیمنٹ کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا ہے، حالانکہ اس کی وجہ مخصوص نشستوں کی قانونی حیثیت سے پیدا ہونے والی سیاسی غیر یقینی صورتحال اور خاص طور پر فنانس سے متعلق سینیٹ وقومی اسمبلی کی کمیٹیوں کی عدم موجودگی ہے۔

حالیہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ بی ایس پی پارلیمنٹ سے نہیں گزری ہے، اور اب کے لیے وقت بھی نہیں بچا ہے، روایتی طور پر بی ایس پی، جو بجٹ مختص کرنے کے وسیع خاکے کا تصور پیش کرتی ہے، پارلیمنٹ کی ان قائمہ کمیٹیوں کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔

آئی ایم ایف کی مشاورت سے تیار کردہ وفاقی بجٹ کا وفاقی کابینہ سے براہ راست پارلیمنٹ میں جانا بھی غیرمعمولی ہوگا، کیوں کہ اس طرح یہ بجٹ سینیٹ وقومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیاں برائے خزانہ میں شامل ماہرین کے جائزے اور بحث کے بغیر منظور ہوگا۔

وزارت خزانہ کے ذرائع نے بتایا کہ وہ 10 جون کو وفاقی کابینہ اور پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کرنے کی توقع رکھتے تھے لیکن زمینی صورتحال کے پیش نظر یہ مشکل دکھائی دے رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ اگر این ای سی تشکیل دیا جاتا ہے اور وزیراعظم کی واپسی کے فوراً بعد 8 جون کو اجلاس بلایا جاتا ہے، تو یہ بالترتیب 9 اور 10 جون کو اقتصادی سروے اور بجٹ پیش کرنے کے لیے بہت سخت شیڈول ہوگا۔

تاہم، انہوں نے نشاندہی کی کہ میکرو اکنامک پلان اور ترقیاتی ایجنڈے کو 2018 میں این ای سی نے منظور نہیں کیا تھا جب تین وزرائے اعلیٰ نے واک آؤٹ کیا تھا اور اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت ہونے والے این ای سی اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا۔

وزیر خزانہ 10 جون کو مالی سال 25-2024 کا بجٹ پیش کریں گے

آئی ایم ایف کے مطالبے پر موسمیاتی تبدیلی کیلئے بجٹ میں بڑے اضافے کی تیاری

ترجیحات نہ ہونے کے سبب ترقیاتی بجٹ کو سنگین چیلنجز کا سامنا