پاکستان

اسلام آباد: عمران خان، شاہ محمود قریشی سائفر کیس میں بری

رواں سال 30 جنوری کو سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔
|

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بری کردیا۔

’ڈان نیوز‘ کے مطابق جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس میں سزا کی خلاف اپیلوں پر مختصر فیصلہ سنایا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں عمران خان، شاہ محمود قریشی کی اپیلیں منظور کرلیں۔

آج عدالت نے سائفر کیس میں اپیلوں پر سماعت مکمل کرلی تھی، عدالتی عملے نے بتایا تھا کہ سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ کچھ دیر بعد سنایا جائے گا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کی، عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے وکلا اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بھی عدالت میں حاضر ہوئے۔

سماعت کے آغاز پروکیل پراسیکیوشن نے بتایا کہ پراسیکیوٹر ذوالفقار عباسی نقوی 20 منٹ میں آرہے ہیں، اس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم صرف آپ کے لیے بیٹھے رہیں اور کوئی کام نہیں؟ ہم نے ریگولر ڈویژن بینچ کینسل کیا ہے، کیا حامد علی شاہ صاحب نے وکالت نامہ واپس لے لیا ہے؟

اس پر اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے کہا کہ حامد علی شاہ صاحب سے ابھی بات ہوئی وہ والدہ کے پاس معروف ہسپتال میں ہیں، وکیل پراسیکیوشن نے کہا کہ سلمان صفدر بے شک چاہیں تو دلائل کا آغاز کر دیں۔

اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ میں نے پہلے کہا تھا ، 11 بجے ہم نے ٹائم کا بتا دیا تھا،اس کیس کی وجہ سے ریگولر ڈویژن بینچ کینسل کی ہے اور سرکاری وکلا نہیں ہیں۔

بعد ازاں بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل کا آغاز کردیا۔

انہوں نے کہا کہ اعظم خان نے سائفر عمران خان کو دیا، اس سے متعلق کوئی دستاویز نہیں، عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس سے متعلق تو آپ کے کلائنٹ کا اپنا اعتراف بھی موجود ہے، سلمان صفدر نے بتایا کہ یہ تو پراسیکیوشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ بات ثابت کریں، قانون بڑا واضح ہے اور اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں ، پراسیکیوشن نے کیس ثابت کرنے کی ذمہ داری پوری کرنی ہے، ایف ایم اے پراسیکیوٹر کی جانب سے کہا گیا کہ بانی پی ٹی آئی نے 342 میں گناہ تسلیم کیا ہے، سیکریٹریٹ رولز کے مطابق اعظم خان جوابدہ ہیں ان سے پوچھا جانا چاہیے۔

وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ سیکریٹریٹ رولز کا ذکر حامد علی شاہ نے یہاں نہیں کیا، ساتھ ہی ان کی جانب سے سپریم کورٹ کی مختلف عدالتی نظریوں کا حوالہ دیا گیا۔

وکیل نے بتایا کہ رات 12 بجے تک بیانات قلم بند کیے جاتے ہیں، صبح 8 بجے ملزمان کو 342 کے بیان کے لیے بلا لیا، جب 342 کا بیان ریکارڈ ہو اس دن فیصلہ بھی سنا دیا گیا۔

اس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ 11:30 پر 342 کا بیان ریکارڈ ہونا شروع ہو اور 1 بجے تک جاری رہا، جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ کیا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد دلائل دیے گئے؟

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ 2 کونسلز جنہوں نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ٹرائل کورٹ میں جراح کی کیا انہوں نے کبھی کریمنل کیس لڑا ہے؟ اگر انہوں نے کیسز لڑے ہیں تو تمام کیسز کی لسٹ تیار کر کے عدالت میں جمع کروا دیں۔

بعد ازاں عمران خان کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ لاپرواہی کا الزام جو بانی چیئرمین پر لگا ہے یہ الزام ان پر لگتا ہی نہیں، 4 گواہان کے مطابق سائفر کی حفاظت اعظم خان کی ذمہ داری تھی، دو سال تحقیقات ہوئیں اس کے بعد ایف آئی آر درج ہوئی ، باقی 8 کاپیاں بھی ایف آئی کی کارروائی کے بعد وآپس ہوئیں، جو 8 کاپیاں لیٹ آئیں ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ جب ثبوت کو ضائع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو 201 لگتی ہے لیکن سائفر تو ان کے پاس موجود ہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حامد علی شاہ گزشتہ تین سماعت پر موجود نہیں تھے، مزید ثبوت جمع کروانے کی متفرق درخواست بھی مسترد کی گئی ، حامد علی شاہ ڈیڑھ ماہ عدالت میں دلائل دیتے رہے ہیں ، ثبوت بعد میں لائے گئے اس کا مطلب کے ہم کیس ثابت نہیں کر سکے، عدالت نے کئی سوالات پوچھے شاہ صاحب نے کہا اس کا جواب بعد میں دوں گا اب شاہ صاحب عدالت میں ہی نہیں ہیں۔

اسی دوران سائفر کیس میں پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی عدالت پہنچ گئے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ پہلے دلائل دیتے رہے پھر غائب ہوئے اور نئی درخواست دائر کردی، پراسیکیوشن کو آخر میں یاد آیا کہ نئے دستاویزات پیش کرنا چاہتے ہیں۔

اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ہمیں سب پتا ہے آپ کو سب کہنے کی ضرورت نہیں۔

غیر ذمہ داری کی بات ہورہی ہے تو یہ کیس وزارت خارجہ نے کیوں نہیں بنایا؟ وکیل سلمان صفدر

سلمان صفدر نے مزید بتایا کہ سائفر پیش کیے بغیر آپ نے دس دس سال سزائیں دی، جب ثابت کرنے کا وقت آیا تو میدان چھوڑ کر بھاگ گئے، پراسیکیوشن کو پھر اچانک خیال آیا کہ دستاویزات جمع کرنے ہیں، پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور ٹرائل کورٹ میں کہا تھا آفیشل دستاویزات ہے پیش نہیں کرسکتے۔

سلمان صفدر نے مزید کہا کہ پھر حامد علی شاہ صاحب آئے تو انہوں نے کہا ہم پیش کرسکتے ہیں، پراسیکیوشن کی غلطی کی وجہ سے کیس ریمانڈ بیک ہوا، پراسیکوشن نے دوبارہ غلطی کی پھر کیس ریمانڈ بیک ہوا، جج صاحب نے سوچا کہ میرے کیے کرائے پر یہ پانی پھیر دیں گے، جج نے سوچا کیوں نا وکیل صفائی کو باہر کرکے اپنا وکیل لاؤ؟ پھر جج صاحب نے ہمیں باہر کردیا اور خود سے وکلا مقرر کرکے سزا سنائی۔

وکیل کا مزید کہنا تھا کہ سائفر اگر گم ہوگیا تو انٹیلیجنس بیورو کو بتانا ہوتا ہے جو کہ نہیں بتایا گیا، غیر ذمہ داری کی بات ہورہی تو یہ کیس وزارت خارجہ نے کیوں نہیں بنایا؟ وزارتِ خارجہ دو ماہ بعد صرف گواہی کے لیے اس کیس میں آئے، جس بندے کو گواہ بنایا اس نے خود کہا کہ سائفر گم ہوگیا تھا، وزارتِ خارجہ کو میٹنگ کے لیے اپنی کاپی لانے کا کہا گیا تھا اور وہ اپنی کاپی ساتھ لے آئے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر پراسیکیوشن کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کیس کو ٹرائل کورٹ واپس بھیج دیں اس میں خامیاں ہیں ، سلمان صفدر صاحب آپ اس پر کیا کہنا چاہتے ہیں وہ بتا دیں؟ وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ آج ہمیں اس کیس میں تین ماہ ہو گئے ہیں، ہم بہت اگے نکل گئے ہیں، عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے پراسیکیوٹر ذوالفقار علی نقوی صاحب کی جانب سے کہا گیا کیس کو میرٹ پر نہیں سنا جا سکتا، ہم آپ سے قانونی طور پر معاونت چاہتے ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے سلمان صفدر سے مکالمہ کیا کہ انہوں نے کہا تھا کہ اگر ٹرائل میں غلطی ہو تو عدالت میرٹ پر نہیں جاسکتی؟ صرف اسی پر جواب دیں۔

ساتھ ہی عدالت نے سلمان صفدر کو ایک نقطے پر دلائل دینے کی ہدایت کی۔

سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ انہوں نے دس دن پہلے آکر کہا کہ آپ اس کیس کو ریمانڈ بیک کریں۔

اگر ٹرائل ٹھیک نہیں تو میرٹ پر نہیں جایا جاسکتا؟ عدالتی ریمارکس

عدالت نے استفسار کیا کہ صرف اسی پر بتائیں کہ اگر ٹرائل ٹھیک نہیں تو میرٹ پر نہیں جایا جاسکتا؟ پراسیکوشن نے کہا کہ اگر ٹرائل میں غلطی ہوئی تو سزا معطل کرکے ریمانڈ بیک ہوگا، اس کیس کو ہم دو دفعہ ریمانڈ بیک کر چکے کیا اب تیسری بار ریمانڈ بیک کریں؟ہمیں صرف اس معاملے پر قانونی معاونت چاہیےاسی لیے آپ سے سوال کیا گیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے سلمان صفدر سے استفسار کیا کہ کیا ہم میرٹ پر جاسکتے ہیں ، صرف اتنا سوال ہے؟ سلمان صفدر نے جواب دیا کہ پہلی بات یہ ہے کہ اس سٹیج پر ریمانڈ بیک کی استدعا بنتی ہی نہیں، پراسیکوشن نے 2011 کے پرانے فیصلے پر انحصار کیا ہے، سپریم کورٹ کے جس فیصلے پر انحصار کیا گیا وہ سول میٹر کا معاملہ ہے، میری بھی اور وکلا کی بھی سزا بہت ہوگئی۔

اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ وکلا کا نام نہ لیں، کیس پر رہیں، ہم نے کہا بھی کہ فیصلوں کو ہمارے حوالے کریں ہم دیکھ لیں گے۔

سلمان صفدر نے کہا کہ سر مجھے تین سے چار منٹ دیں ایک مزے کی ججمنٹ پیش کرتا ہوں۔

اسی کے ساتھ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے وکلا نے کیس ریمانڈ بیک کرنے کی مخالفت کردی۔

بعد ازاں پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے گواہ اعظم خان کا بیان عدالت کے سامنے پڑھ کر سنایا۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ اگر انہوں نے کہا کہ ملٹری سیکریٹری کو ڈھونڈنے کے لیے بتایا تو جان بوجھ کر تو نہیں ہوا ناں، عدالت نے پراسیکیوٹر سے مکالمہ کیا کہ ان کو چھوڑیں، کیس آپ کا تھا تو آپ نے ثابت کرنا ہے، جان بوجھ کر سائفر کاپی عمران خان نے اپنے پاس رکھی اس سے متعلق بتائیں۔

پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی کے دلائل پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ حامد علی شاہ کا کیس ہی کچھ اور تھا، شاہ صاحب نے اس کتابچے پر دلائل دیے تھے آپ اعظم خان کے بیان پر دلائل دے رہے ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے آفیشل سیکریٹ سے متعلق کتابچہ طلب کرلیا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے کتابچے میں جو رولز اینڈ ریگولیشن ہیں وہی ہوں گے ناں؟ ان رولز کے مطابق عمران خان کو سائفر کی کاپی کس نے دی ؟ اس کو آپ رولز کہیں، ریگولیشن کہیں، اس کا عوام کو نہیں پتا تو یہ قانون نہیں، سپریم کورٹ کا واضح فیصلہ ہے، اپنے کیس پر رہیں ادھر ادھر نہ جائیں۔

پراسیکیوشن کے پاس اعظم خان کے بیان کے علاوہ کچھ نہیں ہے؟ عدالت

جسٹس عامر فاروق نے مزید دریافت کیا کہ کیا پراسیکیوشن کے پاس اعظم خان کے بیان کے علاوہ کچھ نہیں ہے؟ پراسیکوشن کا کیس تب آسان ہوتا اگر سائفر کی کاپی عدالت کے سامنے پیش کرتے، اس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہ کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹس تھے اسی وجہ سے ہم نے پیش نہیں کیے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے سامنے کوئی کلاسیفائیڈ دستاویز نہیں ہوتے، سائفر میں کیا افسانہ تھا عدالت کو جمع کرواتے تو پتہ چلتا کہ افسانہ ہے کیا، ایف آئی اے کو دستاویز نہیں دی تو آپ عدالت کے سامنے درخواست کرتے۔

جسٹس عامر فاروق نے سلمان صفدر کے طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سائفر کاپی کے لیے کورٹ میں درخواست دی تھی ناں؟ باہر اگر کوئی جرم سرزد ہو اور 100 لوگ آئیں ہمیں بتائیں کہ جرم سرزد ہوا تو ہم تو وہ نہیں کہیں گے۔

ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ عمران خان نے سائفر پبلک کیا، اس چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ ایک شخص کہہ رہا ہے کہ میرے سے کاپی گم ہوگئی تو بچتا کیا ہے، پراسیکیوٹر نے بتایا کہ عمران خان نے کہا ہے کہ جلسے میں سائفر ہی لہرایا گیا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ 342 کے بیان کی ٹرائل میں اہمیت کا بتا دیں، سلمان صفدر نے پراسیکیوٹر سے مکالمہ کیا کہ نقوی صاحب کو 342 کی اہمیت اور قانونی حیثیت زبانی یاد ہیں، چیف جسٹس نے پراسیکوٹر سے کہا کہ 342 سے متعلق جو آپ پڑھ رہے وہ تو آپ کے مخالف جارہا ہے، آپ وہی بتائیں جو آپ کے حق میں ہو، جہاں اعظم خان خود کہہ رہا کہ وزیراعظم نے کاپی ڈھونڈنے کی ہدایت کی تھی تو کیا رہ گیا؟ نقوی صاحب ایک ہی بات پر قائم رہیں، آپ کبھی ادھر اور کبھی ادھر جارہے ہیں۔

’کلاسیفائید دستاویزات گم کرنے سے ریاست کی سیکیورٹی کیسے خطرے میں پڑ گئی؟‘

اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ کلاسیفائیڈ دستاویزات گم کرنے سے متعلق قوانین کیا ہیں؟ ریاست کی سیکیورٹی کیسے خطرے میں پڑ گئی؟ ایک شخص کیوں ایک کاغذ کے گم ہونے پر جیل میں بند ہے؟ نقوی صاحب میرا سوال کچھ اور تھا اور آپ کا جواب کوئی اور ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر ایک کاغذ گم بھی ہوگیا تو دوسرے شخص کو کیوں جیل میں ڈالا گیا؟ کیا شاہ محمود قریشی نے عمران خان کو کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹس گم کرنے میں معاونت کی تھی؟ شاہ محمود قریشی کے خلاف سیکشن 5 سی کا دفعہ کیسے بنتا ہے؟

پراسیکیوٹر نے بتایا کہ کیس یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے سائفر اپنے پاس رکھ کر پبلک کیا، انہوں نے ٹرائل میں کہیں نہیں کہا کہ سائفر گم ہوگیا یا ہم نے انکوائری بٹھائی، پراسیکیوٹر

اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ یہ جو آپ بار بار کہہ رہے ہیں کہ سائفر گم نہیں ہوا تو پھر فائیو ڈی تو ختم ہوگیا ناں۔

بعد ازاں عدالت نے 15 سے 20 منٹ کا وقفہ کردیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفرکیس میں اپیلوں پر سماعت مکمل کرلی، عدالتی عملے نے بتایا کہ سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ کچھ دیر بعد سنایاجائےگا،۔

بعد ازاں عدالتی عملے نے کہا کہ سائفر کیس میں ججز فیصلہ سنانے آرہے ہیں، آپ سب بیٹھ جائیں۔

رہنما پی ٹی آئی عامر ڈوگر نے کارکنان کو ہدایت دی کہ کورٹ میں کوئی نعرے بازی نہیں کرنی۔

سماعتوں کا احوال

یاد رہے کہ 23 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس پر سماعت کے دوران عدالت نے دریافت کیا کہ فوجداری کیس گواہوں پر جرح کیے بغیر کیس کیسے ختم ہوسکتا ہے؟

22 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس میں تعینات دونوں اسٹیٹ کونسلز کو بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں 6 مئی کو سائفر کیس کی سماعت ملتوی کر دی گئی تھی۔

2 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت 6 مئی تک ملتوی کردی تھی جس دوران عدالت نے دریافت کیا کہ کیا وکیل کی عدم موجودگی میں ملزم کے دفاع کے بیان کی اہمیت کم ہو جائے گی؟

گزشتہ سماعت کے دوران سائفر کیس میں ایک نیا موڑ سامنے آیا تھا جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے مشاہدہ کیا تھا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے پاس ایسے کوئی شواہد نہیں جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ خفیہ کیبلز یا سفارتی مراسلہ سابق وزیراعظم عمران خان کے قبضے میں تھا اور وہ ان کے قبضے سے غائب ہوگیا۔

اس سے قبل 22 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیے تھے کہ یہ فوجداری مقدمہ ہے، شک کا معمولی سا فائدہ بھی ملزمان کو ہی جائے گا۔

واضح رہے کہ 17 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیل پر سماعت 22 اپریل تک ملتوی کردی تھی، سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا تھا کہ وزارت خارجہ کی جگہ داخلہ نے کیوں شکایت درج کرائی؟

واضح رہے کہ اس سے گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس عامر فاروق نے وکیل بانی پی ٹی آئی سے دریافت کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ اعظم خان جو اسٹار گواہ ہیں، ان کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟

واضح رہے کہ 4 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان اور سابق وزیر شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ جو سیکشن لگائے گئے اور سزا سنائی گئی اس سے تو شاہ محمود قریشی کا تعلق ہی کوئی نہیں۔

اس سے قبل 2 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماع ملتوی ہوگئی تھی۔

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ جب کوڈڈ پیغام کو ڈی کوڈ کر کے کاپی بنائی جائے تو وہ بھی سائفر ہی رہے گا؟

یاد رہے کہ اس سے قبل ہونے والی سماعت میں بھی سلمان صفدر نے بتایا تھا کہ سائفر کی کہانی عدم اعتماد کے بعد شروع ہوئی تھی۔

28 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت 2 اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا سائفر کو ڈی کوڈ نہیں کیا گیا؟

20 مارچ کو ہونے والی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وفاقی وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کی خلاف اپیلوں پرچیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سرکاری وکلا کی تعیناتی کس قانون کے تحت ہوتی ہے؟

19 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کل جواب طلب کرلیا تھا۔

13 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں ضمانت اور سزا معطلی کی اپیلوں پر میرٹ پر دلائل سننے کا فیصلہ کرلیا تھا۔

11 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف دائر اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر پی ٹی آئی کے وکلا سے دلائل طلب کرلیے ۔

26 فروری کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں بانی تحریک انصاف عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کرتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کو نوٹس جاری کر دیا۔

16 فروری کو پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے سائفر، توشہ خانہ اور نکاح کیسز میں سنائی گئی سزاؤں کے خلاف عدالتوں سے رجوع کیا۔

اس سے قبل سماعت میں عدالت نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل نے سزا کے خلاف اپیلوں پر دلائل کا آغاز کردیا جبکہ عدالت نے فریقین کو 11 مارچ مکمل تیاری کے ساتھ آنے کی ہدایت کردی تھی۔

واضح رہے کہ رواں سال 30 جنوری کو سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔

سائفر کیس

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔

مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔

سائفر کیس: عمران خان، شاہ محمود قریشی کیلئے تعینات اسٹیٹ کونسلز کو بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت

’اعظم خان کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ؟‘ سائفر کیس میں سزا کیخلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی

جو سیکشن لگائے گئے، سزا سنائی گئی اس سے شاہ محمود قریشی کا تعلق ہی نہیں، عدالت