کاروبار

ترجیحات نہ ہونے کے سبب ترقیاتی بجٹ کو سنگین چیلنجز کا سامنا

موجودہ سال کے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کیلئے قومی اقتصادی کونسل اور پارلیمنٹ کی جانب سے منظور شدہ 950 ارب روپے کی مختص رقم کو 25 فیصد کم کرکے 717 ارب روپے کر دیا گیا ہے

ملکی ترقیاتی پروگرام کو بظاہر سنگین چیلنجز کا سامنا ہے جو اپنے بنیادی ڈھانچے کا ایک حصہ بھی پورا کرنے سے قاصر ہے، جب کہ بجٹ میں مختص رقم حلقوں کی سیاست اور خسارے کی مالی اعانت کی طرف جا رہی ہے، جسے قومی اقتصادی کونسل (این ای سی)کے فیصلوں کی خلاف ورزی سمجھا جارہا ہے۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق وزارت منصوبہ بندی وترقی اور سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی (اے پی سی سی) کی جانب سے این ای سی کے سامنے ایک باضابطہ سمری پیش کی گئی ہے، جس میں وزارت خزانہ کو قومی ترقی میں رکاؤٹ ڈالے بغیر این ای سی کی جانب سے دی گئی مالی حدود کے اندر رہنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔

اس سمری میں خاص طور پر، وزارت خزانہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’جہاں بھی ضرورت ہو فارن ایکسچینج کمپوننٹ (ایف ای سی) کور فراہم کرے اور ترقیاتی اخراجات کو کفایت شعاری کے اقدامات سے مستثنیٰ قرار دے‘، جب کہ نقد ترقیاتی قرضوں (سی ڈی ایل) کے ذریعہ کٹوتی نہ کی جائے اور ایک مخصوص سال کے دوران ترقیاتی فنڈز کو غیرترقیاتی کاموں کی جانب نہ منتقل کیے جائیں۔

سمری میں تجویز کیا گیا کہ وزارت خزانہ کی جانب سے بنیادی توازن کے ہدف کو عبور کرنے پر فخر کرنا چاہیے جو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے وعدے سے کافی زیادہ ہے، گزشتہ مالی سال کے دوران ترقیاتی منصوبوں کی لاگت میں اضافہ، سالانہ ڈیڈلائن میں تاخیر سے نمایاں طور پر نقصان ہوا۔

اس میں کہا گیا ہے کہ موجودہ سال کے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کو این ای سی اور پارلیمنٹ کی طرف سے منظور شدہ 950 ارب روپے کی مختص رقم کو 25 فیصد کم کرکے 717 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔

اس پس منظر میں، اگلے سال کے لیے پی ایس ڈی پی کو کئی اہم چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا، وزارتوں اور ڈویژنوں نے 28 کھرب روپے کے مطالبات پیش کیے کیونکہ پروجیکٹ تھرو فارورڈ 2013-14 میں 30 کھرب روپے کے مقابلے اس سال 98 کھرب روپے تک پہنچ گیا۔ پی ایس ڈی پی کی مختص رقم اور اخراجات کا حجم اس دہائی کے دوران 630 ارب روپے کے اوسط پر جمود کا شکار رہا۔

اس رفتار کے ساتھ، پہلے سے زیر عمل منصوبوں کو مکمل ہونے میں 16 سال لگیں گے، لیکن اس کے لیے شرط ہے کہ کوئی نیا منصوبہ شروع نہ کیا جائے۔

پلاننگ کمیشن نے کہا ’جی ڈی پی کے فیصد کے لحاظ سے پی ایس ڈی پی کا حجم وقت کے ساتھ سکڑ گیا اور 2013 میں جی ڈی پی کے 1.7 فیصد سے کم ہو کر 24-2023 میں جی ڈی پی کے 0.9 فیصد رہ گیا،‘ پی ایس ڈی پی کا حجم بھی مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے کم ہورہا ہے، مزید برآں، آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے، بنیادی خسارے کو پی ایس ڈی پی میں کٹوتی کے ساتھ رکھا گیا، جو ملک میں ترقیاتی سرمایہ کاری کی خرابی کا باعث بنا۔

سمری میں کہا گیا ہے کہ این ای سی نے جاری ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے گزشتہ سال پالیسی گائیڈ لائنز کی منظوری دی تھی جس میں ہر سہ ماہی کے لیے 25 فیصد فنڈز، پی ایس ڈی پی فنڈز سے نقد ترقیاتی قرضوں کی کٹوتی، اور کفایت شعاری سے ترقیاتی فنڈز کا استثنیٰ شامل تھا۔

اس میں کہا گیا ’فنانس ڈویژن نے بالترتیب کوارٹر ون، ٹو، تھری اور فور کے لیے این ای سی سے منظور شدہ ریلیز کی حکمت عملی کے برعکس 15 فیصد، 20 فیصد، 25 فیصد اور 40 فیصد پر بیک لوڈڈ ریلیز کی حکمت عملی جاری کی۔‘

اس کے علاوہ، رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) میں 131 ارب روپے کی کل ریلیز میں سے (انتخابات سے قبل اراکین پارلیمنٹ کے لیے)، 61.26 ارب روپے (47 فیصد) ایس ڈی جی اسکیموں کے لیے مختص کیے گئے تھے اور تمام پی ایس ڈی پی منصوبوں کے لیے صرف 69.74 ارب روپے چھوڑے گئے تھے۔

ٹی 20 ورلڈکپ: نمیبیا نے سپر اوور میں عمان کو شکست دے دی

ایف آئی اے کی تحقیقات کے بعد پی ٹی آئی کےخلاف قانونی کارروائی پر غور کریں گے، عطا تارڑ

یورپی کمیشن کا قومی ایئر لائن پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی اٹھانے کا فیصلہ مؤخر