پاکستان

بجٹ 25-2024: حکومت کی نظریں معاشی شرح نمو 3.6 فیصد بڑھانے پر مرکوز

12 کھرب 21 ارب روپے کا پی ایس ڈی پی موجودہ سال کے لیے مختص کردہ 950 ارب روپے کے مقابلے میں تقریباً 30 فیصد زائد ہے۔

سالانہ منصوبہ بندی رابطہ کمیٹی (اے پی سی سی) نے مالی سال 25-2024 کے لیے 30 کھرب روپے کے قومی ترقیاتی منصوبے (این اے پی) کی منظوری دے دی، جس میں وفاقی حکومت کا 12 کھرب 21 ارب روپے کا پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) بھی شامل ہے تاکہ معاشی نمو کو مالی سال 2024 کے 2.38 فیصد سے بڑھا کر 3.6 فیصد تک کیا جاسکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 12 کھرب 21 ارب روپے کا پی ایس ڈی پی موجودہ سال کے لیے مختص کردہ 950 ارب روپے کے مقابلے میں تقریباً 30 فیصد زائد ہے، موجودہ سال کے لیے رکھی گئی رقم کو اب مالیاتی مشکلات کے سبب کٹوتی کرکے 717 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ توانائی کمپنیاں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے علاوہ 185 ارب روپے کی سرمایہ کاری کریں گی، جس کے نتیجے میں وفاق کی جانب سے ترقیاتی اخراجات 14 کھرب 6 ارب روپے ہو جائیں گے۔

پاور ڈویژن کے علاوہ این اے پی میں پنجاب کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 700 ارب روپے اور سندھ کے لیے 763 ارب روپے شامل ہیں۔

خیبرپختونخوا نے علیحدہ سے 627 ارب روپے کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا اعلان کیا ہے، سالانہ منصوبہ بندی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن جہانزیب خان کی سربراہی میں منعقد ہوا ، اے پی سی سی بلوچستان کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے بارے میں خاموش ہے، قومی ترقیاتی اخراجات کے لیے مجموعی طور پر 35 کھرب روپے سے زائد کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

موجودہ پالیسی کے برخلاف وفاقی حکومت نے اپنی سماجی شعبے کی ذمہ داری میں کمی کردی اور اگلے مالی سال کے لیے مختص رقم 59 فیصد کم کرکے 83 ارب روپے کر دی، اس کے لیے مالی سال 2024 کے دوران 203 ارب روپے رکھے گئے تھے۔

اسی طرح وفاق نے آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور انضمام شدہ قبائلی اضلاع کے لیے مختص ترقیاتی فنڈز کو موجودہ سال کی سطح پر منجمد کر دیا ہے، اس کے بجائے، انفراسٹرکچر میں وفاقی سرمایہ کاری کو 60 فیصد سے بڑھا کر 877 ارب روپے اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں موجودہ سال کے دوران 148 فیصد سے بڑھا کر 104 ارب روپے کر دیا ہے۔

وفاقی پی ایس ڈی پی میں سے شعبہ توانائی کے لیے سب سے زیادہ 378 ارب یا 212 فیصد زائد رقم مختص کی جائے گی، موجودہ سال کے لیے 121 ارب روپے رکھے گئے تھے، اسی طرح پانی کے شعبے کے لیے موجود سال کے 148 ارب روپے کے مقابلے میں 92 فیصد اضافے کے بعد 284 ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔

دوسری جانب ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن سیکٹر کو رواں برس 245 ارب روپے کے مقابلے میں اگلے سال صرف 173 ارب روپے ملیں گے، یہ 29 فیصد کی تنزلی ہے۔

شعبہ صحت کے لیے مختص رقم 35 فیصد کمی کر کے 17 ارب روپے کر دی گئی، جبکہ اعلیٰ تعلیم سمیت تعلیمی اخراجات کو رواں سال کے دوران 83 ارب روپے سے تقریباً 62 فیصد کم کر کے 32 ارب روپے کر دیا گیا۔

مثبت پہلو کے طور پر سیاسی اسکیموں کے لیے غلط استعمال ہونے والے نام نہاد پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی) کے لیے مختص رقم کو اگلے سال کے لیے مکمل طور پر ختم کر دیا گیا، جس کے لیےرواں برس 61 ارب روپے رکھے گئے تھے، گورننس کی مختص رقم میں 38 فیصد اضافہ کرکے 29 ارب روپے جبکہ زرعی شعبے کو رواں سال کے 9 ارب روپے کے مقابلے میں اگلے سال 14 ارب روپے ملیں گے۔

اگلے سال کے لیے ترقی کا ہدف 3.6 مقرر کیا گیا ہے، زراعت میں 2 فیصد، صنعتی شعبے میں 4.4 فیصد اور خدمات میں 4.1 فیصد مثبت نمو کا ہدف ہے۔

اگلے مالی سال کے لیے زرعی شعبے کی 2 فیصد کی شرح نمو ترقی کی رفتار میں کافی کمی کو ظاہر کرتی ہے، موسمی شدت اور معمول سے کم بارشوں کی وجہ سے پانی کی ناکافی دستیابی، خاص طور پر خریف کی فصلوں کے معاملے میں اہم فصلوں کی پیداوار میں 4.5 فیصد کمی متوقع ہے، دیگر فصلوں اور مویشیوں کے ذیلی شعبے کے لیے بالترتیب 4.3 فیصد اور 3.8 فیصد بڑھنے کا تصور کیا گیا ہے۔

دہشتگردی کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے مشترکہ لائحہ عمل کی ضرورت ہے، وزیر داخلہ

ٹی20 ورلڈکپ: امریکی سفیر کا قومی ٹیم کیلئے نیک خواہشات کا اظہار

پنجاب میں خسرہ وبا کے پھیلاؤ کی ذمہ دار پی ٹی آئی ہے، خواجہ عمران نذیر