الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس پر لاہور ہائی کورٹ کا حکم ’بے معنی‘ ہے، الیکشن کمیشن
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے والا آرڈیننس اب ایک قانون ہے، لہٰذا لاہور ہائی کورٹ کا حکم بے معنی ہے اور اسے جلد ہی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کو ریٹائرڈ ججوں کو الیکشن ٹربیونلز کی تقرری کے لیے بااختیار بنانے کے متنازع آرڈیننس کے نفاذ کے چند روز بعد، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جمعہ کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ سے ملاقات کی۔
یہ ملاقات لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کو صوبہ پنجاب کے لیے مزید 6 الیکشن ٹربیونلز (ای ٹیز) کو نوٹیفائی کرنے کے حکم کے بعد ہوئی۔
جسٹس شاہد کریم نے یہ حکم پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ اور راؤ عمر ہاشم خان کی جانب سے دائر کی گئی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے دیا تھا، جو بالترتیب این اے 128، لاہور اور این اے 139، پاکپتن سے عام انتخابات میں ہار گئے تھے۔
26 صفحات پر مشتمل فیصلے میں جسٹس شاہد کریم نے فیصلہ دیا کہ ای سی پی، لاہور ہائی کورٹ کے تمام 6 ججوں کو الیکشن ٹربیونل کے طور پر مقرر کرنے کا پابند ہے جیسا کہ چیف جسٹس نے نامزد کیا ہے، جب تک وہ کوئی نام واپس نہ لے لیں۔
باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ملاقات کے دوران الیکشن ٹربیونلز کی تقرری سے متعلق حالیہ پیش رفت زیر بحث آئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاقات کے دوران ای سی پی کے وزارت پارلیمانی امور کے پاس زیر التواء کچھ معاملات اور ای سی پی کو بجٹ مختص کرنے پر بھی بات چیت ہوئی۔
ای سی پی کے ایک سینئر عہدیدار نے رابطہ کرنے پر کہا کہ الیکشنز ایکٹ میں ترمیم کرنے والا آرڈیننس اب ایک قانون ہے، لہٰذا لاہور ہائی کورٹ کا حکم بے معنی ہے اور اسے جلد ہی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ الیکشنز ایکٹ کے سیکشن 140 کے تحت اس کی اصل شکل میں، متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کی مشاورت سے صرف موجودہ ججوں کو ٹربیونلز کے طور پر مقرر کیا جانا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اب ای سی پی کو اعلیٰ عدالتوں کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ ججوں کو چیف جسٹس سے مشاورت کے بغیر تعینات کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایکٹ کے سیکشن 151 کے تحت ای سی پی کسی بھی مرحلے پر اپنی تحریک پر یا کسی پارٹی کی درخواست پر اور ریکارڈ کی جانے والی وجوہات کی بناء پر الیکشن پٹیشن کو ایک الیکشن ٹربیونل سے دوسرے الیکشن ٹربیونل میں منتقل کر سکتا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ای سی پی کو ایک حاضر سروس جج پر مشتمل ٹربیونل سے اب ریٹائرڈ جج کو کیس منتقل کرنے کے اختیارات حاصل ہیں، تو انہوں نے اس کا جواب اثبات میں دیا۔
دریں اثنا، الیکشن کمیشن نے انتخابی مہم کے اخراجات کی تفصیلات جمع نہ کرانے پر 40 سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو طلب کر لیا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ کاز لسٹ کے مطابق سیاسی جماعتوں کو قانونی تقاضے پورے نہ کرنے پر نوٹس جاری کیے گئے ہیں، جس میں انہیں 5 جون کو ای سی پی میں پیش ہونے کا کہا گیا ہے۔
جن جماعتوں کو نوٹسز جاری کیے گئے ہیں ان میں پاکستان مسلم لیگ (ق)، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، مجلس وحدت المسلمین اور پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) شامل ہیں۔
الیکشنز ایکٹ، 2017 کے سیکشن 211 کے مطابق، ایک سیاسی جماعت ای سی پی کو ان شراکت داروں کی فہرست فراہم کرتی ہے جنہوں نے سیاسی جماعت کو انتخابی مہم کے اخراجات کے لیے 10 لاکھ روپے یا اس سے زیادہ کی رقم دی ہو۔
قانون کے تحت سیاسی جماعتوں کو عام انتخابات، ضمنی انتخاب اور سینیٹ الیکشن کے دوران کیے گئے انتخابی اخراجات کی تفصیلات بھی کمیشن کو فراہم کرنی ہیں۔
الیکشن کمیشن نے اب پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق معاملے کی سماعت کے لیے 6 جون کی تاریخ مقرر کی ہے، اس حوالے سے پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان اور وفاقی چیف الیکشن کمشنر رؤف حسن کو نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں۔