عمران خان کے 1971 سے متعلق ٹوئٹ پر پی ٹی آئی کی مشکلات میں اضافہ
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے موجودہ سیاسی صورتحال کا سقوط ڈھاکا سے موازنہ کرنے سے متعلق بانی پی ٹی آئی عمران خان کی حالیہ پوسٹ سے خود کو الگ کرنے کے بعد، جمعہ کو اس پوسٹ کو تسلیم کیا اور وہی مطالبہ دہرایا، جو ابتدائی طور پر کیا گیا کہ لوگ حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ پڑھیں اور فوج اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعہ کو پی ٹی آئی کور کمیٹی اجلاس کے بعد جاری بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) عمران خان کے خلاف ایک اور مقدمہ بنانے پر تلی ہوئی ہے، جو اس وقت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔
گزشتہ چند دنوں کے دوران پی ٹی آئی کے اعلیٰ رہنماؤں بشمول چیئرمین گوہر علی خان، ایم این اے علی محمد خان اور پارٹی کے ترجمان رؤف حسن نے اصرار کیا تھا کہ عمران خان کو ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ تک رسائی حاصل نہیں ہے اور یہ پوسٹ کسی اور کی جانب سے کی گئی ہے۔
تاہم سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین قریشی نے اس موقف کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ پر ان کی مرضی کے بغیر کوئی ٹوئٹ نہیں کی گئی۔
سیاسی مخالفین کا عمران خان کو خاموش رہنے کا مشورہ
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے عمران خان پر زور دیا کہ اگر وہ حالات کو بہتر کرنا چاہتے ہیں تو خاموش رہیں، جب کہ پی ٹی آئی کور کمیٹی نے یہ کہہ کر حکومت کے موقف کی تائید کی کہ یہ پوسٹ بانی پی ٹی آئی کی منظوری سے سوشل میڈیا پر کی گئی۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے جیو نیوز کو بتایا کہ عمران خان اگر حالات کو مزید کشیدہ نہیں کرنا چاہتے ہیں تو ان کو اپنا منہ بند رکھنا چاہیے، انہوں نے اشارہ دیا کہ بیک چینلز صورتحال کو قابو کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ عمران خان ملک میں 9 مئی جیسی صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ عمران خان نے سوشل میڈیا پر جو کچھ پوسٹ کیا اس کا جواب دینا ہوگا، جب کہ وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ پی ٹی آئی کور کمیٹی اس معاملے پر ایک پیج پر نہیں ہے۔
متنازعہ پوسٹ
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی ٹیم نے اس پوسٹ سے متعلق شروع کی گئی تحقیقات کے سلسلے میں جمعہ کو اڈیالہ جیل کا دورہ کیا تاکہ پی ٹی آئی کے بانی سے پوسٹ کے حوالے سے سوالات کیے جائیں۔
تاہم، ذرائع نے بتایا کہ عمران خان نے تفتیش کاروں سے ملنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف اپنے وکیل کی موجودگی میں ان سے ملیں گے۔
26 مئی کو، عمران خان کے آفیشل اکاؤنٹ نے ان سے منسوب بیان کے ساتھ ایک ویڈیو شیئر کی گئی ’ہر پاکستانی کو حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کا مطالعہ کرنا چاہیے اور جاننا چاہیے کہ اصل غدار کون تھا، جنرل یحییٰ خان یا شیخ مجیب الرحمٰن۔‘
ویڈیو میں پاکستانی فوج کی طرف سے کیے گئے مبینہ مظالم کا حوالہ دیتے ہوئے دلیل دی گئی کہ خانہ جنگی کے دوران سابق فوجی آمر ہی اصل میں ملک کے ٹوٹنے کا ذمہ دار تھا۔
ویڈیو میں موجودہ سویلین اور عسکری قیادت کی تصاویر کو بھی ایک دوسرے سے ملایا گیا، جس میں الزام لگایا گیا کہ انہوں نے عام انتخابات میں پارٹی کا مینڈیٹ چرایا۔اس پوسٹ کا دفاع کرتے ہوئے، بیرسٹر گوہر نے پہلے اصرار کیا تھا کہ یہ پیغام سیاسی نقطہ بنا رہا ہے اور فوج کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔
اے آر وائی نیوز کے ایک پروگرام کے دوران پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن نے کہا تھا کہ عمران خان کا اکاؤنٹ ان کی ٹیم کے زیر انتظام ہے کیونکہ وہ جیل میں تھے اور ان کی سوشل میڈیا تک رسائی نہیں تھی۔
تاہم پی ٹی آئی ایم این اے زین قریشی اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ عمران خان کے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر ان کی رضامندی کے بغیر کچھ بھی شائع نہیں کیا گیا۔