پاکستان

وفاقی حکومت نے فیض آباد دھرنا کمیشن سے متعلق کابینہ کمیٹی تشکیل دے دی

وزیر قانون اعظم تارڑ کی سربراہی میں وزیر داخلہ، اٹارنی جنرل، سیکریٹری قانون پر مشتمل کمیٹی 2 ہفتوں میں نیا انکوائری کمیشن قائم کرنے کے لیے ٹرمز آف ریفرنس کا تعین کرے گی۔

وفاقی حکومت نے فیض آباد دھرنا کمیشن سے متعلق کابینہ کمیٹی تشکیل دے دی۔

’ڈان نیوز ’ کی رپورٹ کے مطابق کابینہ کمیٹی کے سربراہ وزیر قانون اعظم تارڑ ہوں گے، وزیر داخلہ محسن نقوی، اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان اور سیکریٹری قانون کمیٹی میں شامل ہوں گے۔

تشکیل کردہ نئی کمیٹی 2 ہفتوں میں نیا انکوائری کمیشن قائم کرنے کے لیے ٹرمز آف ریفنرس ( ٹی او آرز) کا تعین کرے گی۔

وفاقی کابینہ اور سپریم کورٹ پہلے ہی نگران حکومت کے قائم کردہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ مسترد کر چکی ہیں۔

واضح رہے کہ 21 مئی کو وفاقی کابینہ نے فیض آباد دھرنا واقعے کے انکوائری کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ انکوائری کمیشن نے اپنے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) کے مطابق کام نہیں کیا۔

وفاقی کابینہ کو اٹارنی جنرل آف پاکستان کی جانب سے فیض آباد دھرنا واقعے کے انکوائری کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی گئی تھی اور اس حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی تھی۔

کابینہ نے اس رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ انکوائری کمیشن نے اپنے ٹرمز آف ریفرنس کے مطابق کام نہیں کیا۔

وفاقی کابینہ نے اس حوالے سے کابینہ کی ایک خصوصی کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت کی تھی جو اس سلسلے میں اپنی سفارشات پیش کرے گی۔

وفاقی کابینہ کے عدم اطمینان سے چند روز قبل سپریم کورٹ نے 2017 میں 20 روزہ فیض آباد دھرنے کے حوالے سے خصوصی کمیشن کی رپورٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے دقیانوسی قرار دے دیا تھا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری ہونے والے 3 صفحات پر مشتمل حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ کمیشن کی رپورٹ میں ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آر) پر توجہ نہیں دی گئی اور غلط اندازہ لگایا گیا کہ اسلام آباد جانے اور احتجاج کرنے کا حق ممنوع ہے، عدالت نے مشاہدہ کیا کہ رپورٹ جانبدارانہ تھی اور اس نے عدالت کی طرف سے جاری کیے گئے احکامات اور فیصلے کے دیگر پہلوؤں پر غور نہیں کیا۔

کمیشن کی رپورٹ پر تشدد کے مرتکب افراد کو بری کرنے اور سیاسی سرپرستی میں شامل افراد کو سزا دینے پر بھی تنقید کی گئی تھی، سپریم کورٹ نے نوٹ کیا تھا کہ رپورٹ میں بغیر کسی وضاحت کے دوسرے کی گواہی پر ایک شخص کے بیان کو ترجیح دی گئی، تعصب کا مظاہرہ کیا گیا اور کمیشن کی غیر جانبداری پر سمجھوتہ کیا گیا۔

جب اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سے پوچھا گیا کہ کیا وفاقی حکومت نے رپورٹ کی توثیق کی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ حکومت اس حوالے سے جواب جمع کروائے گی، تاہم، انہوں نے اپنی رائے میں کہا کہ رپورٹ میں مادہ کی کمی تھی اور اس میں ٹی او آرز کے مطابق مکمل بات نہیں کی گئی۔

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ حکومت کا جواب جمع کرائیں اور اس بارے میں ہدایات حاصل کریں کہ آیا حکومت کمیشن کی رپورٹ کو عام کرنا چاہتی ہے یا نہیں، عدالت نے کمیشن کے ارکان اور چیئرمین کو ابتدائی مشاہدات کا تحریری جواب دینے کی ہدایت بھی کی اور کہا کہ اگر وہ ذاتی طور پر مزید جواب دینا چاہیں تو آئندہ سماعت پر حاضر ہوسکتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے حکم نے ان اہم پہلوؤں کو حل کرنے میں کمیشن کی ناکامی کو اجاگر کیا تھا جس سے رپورٹ کی ساکھ اور غیر جانبداری پر سوالات اٹھتے ہیں۔

ٹی او آرز میں کمیشن سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ فیض آباد دھرنا کرنے کے لیے تحریک لبیک پاکستان کو فراہم کی گئی غیر قانونی مالی یا دیگر معاونت کی انکوائری کرے، فتوے یا فتوے جاری کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی سفارش کرے، براڈ کاسٹرز اور کیبل آپریٹرز کے خلاف پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی کارروائی انکوائری کرے، سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت اور تشدد کے پھیلاؤ کی جانچ کرے، ذمہ داروں کا تعین کریں اور ریلیوں، احتجاج اور دھرنوں سے نمٹنے کے لیے اقدامات کی سفارش کریں۔

مریم نفیس سے براہ راست شو میں ذو معنی مذاق کرنا غلط تھا، تابش ہاشمی کا اعتراف

ٹی20 ورلڈ کپ: آسٹریلیا نے وارم اپ میچ میں کوچ اور سلیکٹر کو میدان میں اتار دیا

جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کی کوئی پالیسی نہیں، مشیر نیشنل کمانڈ اتھارٹی