بحریہ ٹاؤن افسران کو جہاز سے ’اتارے جانے‘ کے خلاف درخواست پر آج سماعت ہوگی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک کیس میں حکومت کے سامنے سوال رکھا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے تین عہدیداروں کو سعودی عرب جانے والی پرواز سے کیوں اتارا گیا؟ اس مقدمے کی سماعت آج (جمعرات) کو متوقع ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ سوال ریٹائرڈ بریگیڈیئرز طاہر بٹ، ظفر اقبال شاہ اور منظور حسین مغل کی جانب سے عدالت کے سامنے دائر تین الگ الگ درخواستوں کے سلسلے میں کیا گیا تھا، جن میں سے ہر ایک کو الگ بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا گیا ہے، طاہر بٹ بحریہ ٹاؤن کے لیے ’لینڈ سیکیورٹی‘ کے سربراہ ہیں، ظفر شاہ بھی زمین سے متعلق معاملات کو دیکھتے ہیں، جبکہ حسین مغل متنازع پراپرٹی ڈویلپر ملک ریاض کے تمام رئیل اسٹیٹ پروجیکٹس کے لیے چیف سرویئر کے اہم عہدے پر فائز ہیں۔
واضح رہے کہ بحریہ ٹاؤن اور ملک ریاض دونوں ہی حال ہی میں اس وقت سرخیوں میں آگئے تھے جب بااثر پراپرٹی ٹائیکون کی جانب سے سوشل میڈیا پر کچھ غیر معمولی پوسٹس کی گئیں جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ ان پر سیاسی دباؤ ہے۔
اس کے بعد منگل کو رئیل اسٹیٹ فرم کے راولپنڈی کے دفاتر پر بظاہر قومی احتساب بیورو اور مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے چھاپہ مارا گیا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس میں 190 ملین پاؤنڈ کے کرپشن ریفرنس کے پس منظر میں ہو رہا ہے کیونکہ ملک ریاض اور ان کے خاندان کے افراد بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہیں عدالت کے سامنے پیش نہ ہونے پر اشتہاری قرار دیا گیا ہے۔
ملک ریاض کا سیاسی حلقوں اور ملک کی سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ انتہائی گہرا تعلق سمجھا جاتا ہے لیکن ان کا بحریہ ٹاؤن کا کاروبار قانونی پریشانیوں سے ناواقف نہیں۔
رئیل اسٹیٹ ڈویلپر پر متعدد عدالتی مقدمات ہیں، جس نے ان پر اپنے شاندار رئیل اسٹیٹ پروجیکٹس کے لیے قابل اعتراض اور اعلیٰ درجے کی زمینی حصول کے حربے استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے۔
اسٹاپ لسٹ میں نام
عدالت میں بحریہ ٹاؤن کے تینوں اہلکاروں نے مؤقف اپنایا کہ انہیں عمرہ کی ادائیگی کے لیے اسلام آباد ایئرپورٹ پر سعودی عرب جانے والی پرواز سے امیگریشن عملے نے اتارا تھا۔
تینوں کیسز میں سے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ان کے سامنے آئی درخواست کو نمٹاتے ہوئے اسے نمائندگی میں تبدیل کردیا تھا اور اسے اسپیکنگ آرڈر کے لیے وزارت داخلہ کو بھیج دیا تھا۔
تاہم، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب محمد طاہر نے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو نوٹس جاری کیے تھے۔
جواب میں ایف آئی اے نے انٹیگریٹڈ بارڈر مینجمنٹ سسٹم (آئی بی ایم ایس) کی ’اسٹاپ لسٹ ڈاکومنٹ‘ جمع کرائی، جس کے مطابق جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی کی سفارش پر تینوں افراد کو پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں رکھا گیا۔
ایف آئی اے کے ایک اہلکار نے کہا کہ درخواست گزاروں کو انٹیلی جنس ایجنسی کی سفارش پر بلیک لسٹ/پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا گیا۔
ایجنسی کے تحریری بیان میں وضاحت کی گئی ہے کہ انٹیگریٹڈ بارڈر مینجمنٹ سسٹم کو فوری معلومات کی ترسیل کے مقصد سے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف امیگریشن اینڈ پاسپورٹ، اسلام آباد کے نظام کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے۔
جیسے ہی پی سی ایل سے کسی بھی فرد کا نام رکھا یا ہٹایا جاتا ہے تو ایف آئی اے امیگریشن حکام کے ذریعے اسے نافذ کرنے کے لیے اسے ایف آئی اے آئی بی ایم ایس کو بھی منتقل کیا جاتا ہے۔
تاہم، عدالت نے وزارت دفاع سے کہا ہے کہ وہ وضاحت کرے کہ ان کے نام اسٹاپ لسٹ میں کیوں ڈالے گئے؟ اور توقع ہے کہ آج جب معاملہ اٹھایا جائے گا تو اس کا جواب دیا جائے گا۔