پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کرنے پر برطانوی ہائی کمشنر کا اعتراض بلاجواز ہے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ آف پاکستان نے تحریک انصاف کو عام انتخابات میں بلے کے نشان سے محروم کرنے کے حوالے سے برطانوی ہائی کمشنر کے اعتراف کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے وہی کیا جو قانون کہتا ہے۔
اپریل میں ہونے والی عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر جین نے جمہوریت کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، پاکستان میں عام انتخابات اور تحریک انصاف کو بلے نشان سے محروم کرنے سمیت مختلف امور پر بات کی تھی۔
رجسٹرار سپریم کورٹ نے برٹش ہائی کمشنر کی جانب سے کانفرنس کی میں کی گئی تنقید پر چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے حکم پر خط لکھ کر تفصیلی جواب دیا۔
خط کے متن میں کہا گیا کہ برطانوی ہائی کمشنر نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں جمہوریت اور کھلے معاشرے کی بات کی لیکن آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ سپریم کورٹ نے خود معلومات کے حق کو تسلیم کیا اور اس کا اپنے اوپر اطلاق کیا۔
اس سلسلے میں کہا گیا کہ عاصہ جہانگیر کانفرنس میں آپ کی پرجوش تقریر میں جمہوریت کی اہمیت، انتخابات اور کھلے معاشرے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا اور برطانوی حکومت کی طرف سے دکھائی جانے والی دلچسپی خوش آئند ہے۔
خط میں کہا گیا کہ پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے کے 90 دن کے اندر انتخابات کرانا ضروری تھا لیکن انتخابات بروقت اس لیے نہیں ہو سکے کیونکہ صدر اور الیکشن کمیشن متفق نہیں تھے کہ انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار کس کو ہے۔
اس سلسلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے یہ معاملہ صرف 12 دنوں میں حل کر دیا اور اور 8 فروری 2024 کو پورے پاکستان میں عام انتخابات ہوئے۔
پابندی کا شکار افراد کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کے حوالے سے اعتراض پر انہوں نے کہا کہ پاکستان میں الیکشن لڑنے کے خواہشمند بہت سے لوگوں کو تاحیات پابندی کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ سپریم کورٹ کی طرف سے انہیں صادق اور امین نہیں سمجھا جاتا البتہ سات رکنی بینچ نے سابقہ فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق نہیں ہے۔
تحریک انصاف کو انتخابات میں ’بلے کے نشان‘ سے محروم کرنے کے حوالے سے برطانوی ہائی کمشنر کے اعتراض پر خط میں کہا گیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد آمریت کو روکنے اور سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کے لیے ضروری ہے اور اس جمہوری اصول کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے قانون میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرواتی تو وہ انتخابی نشان کی اہل نہیں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ خود اس قانون کے حق میں ووٹ دینے والی ایک سیاسی جماعت نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے اور اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے وہی کیا جو قانون کہتا تھا لہٰذا اس فیصلے کے حوالے سے آپ کی تنقید بلاجواز تھی۔
رجسٹرار نے خط میں مزید لکھا کہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ موجودہ چیف جسٹس کے عہدہ سنبھالنے کے بعد ہی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عوامی اہمیت کے حامل مقدمات کی سماعت براہ راست نشر ہونے لگی اور چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے مقدمات لائیو نشر کرنے کی اجازت دی۔
ان کا کہنا تھاکہ پاکستانی عوام سپریم کورٹ کی کارروائی کو مکمل طور پر دیکھ سکتے ہیں تاکہ عوام کو بھی مقدمات کی شفافیت اور فیصلوں کے بارے میں علم ہو، انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کے نشان کے بارے میں فیصلہ بھی براہ راست نشر کیا گیا تھا۔
انہوں نے لکھا کہ ماضی کی غلطیوں کو آگے لے جانے سے آج اور مستقبل کی نسلیں برباد ہو جاتی ہیں اور تشدد کے عمل کو مزید ہوا ملتی ہے۔
اس موقع پر خط میں 1953 میں تیل کے حصول کے لیے ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے اور 1917 بالفور اعلامیہ کے ذریعے اسرائیلی ریاست کے قیام اور فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کر کے تشدد اور قتل عام کا نشانہ بنانے کا تذکرہ بھی کرتے ہوئے سوال کیا گیا کہ کیا یہ سب درست تھا، ہمیں سچائی کے ساتھ ماضی میں کیے گئے غلط فیصلوں کو تسلیم کرنا چاہیے اور ضرورت اس امر کی ہے برطانیہ بھی غلطیوں کا ازالہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی ماضی میں کی گئی غلطیوں کو تسلیم کیا، ان پر تفصیلی گفتگو کی اور اقدامات اٹھاتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان غلطیوں کو دہرایا نہ جائے۔
خط میں کہا گیا کہ شہزادہ چارلس سوئم کی حکومت نے ایک کھلے معاشرے اور جمہوریت کی ضرورت پر زور دیا ہے اور پاکستان کی سپریم کورٹ کے فیصلوں پر تنقید کی ہے لہٰذا امید کی جاتی ہے کہ باہمی تعاون کو قبول کیا جائے گا۔